السلام کے قائل رہے۔ یہ بھی دو وجوہ سے بالکل باطل ہے۔
اوّل… اس لئے کہ مرزاقادیانی نے براہین احمدیہ میں اپنا یہ عقیدہ ایک الہام کے ضمن میں بیان کیا ہے اور اس الہام کا مفاد یہ بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سیاسی حیثیت سے ان منکروں کی سرکوبی کے لئے دوبارہ تشریف لائیں گے۔
دوم… اس لئے کہ مرزاقادیانی نے رسمی عقیدہ کے طور پر تو لکھ دیا۔ لیکن جب یہ کتاب بقول مرزاقادیانی حضور اکرمﷺ کے دربار میں پیش ہوکر قبولیت حاصل کر رہی تھی۔ کیا اس وقت یہ تمام بیانات جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات، رفع آسمانی اور نزول ثانی مرقوم تھے۔ ان کا اخراج عمل میں آیا تھا؟ حالانکہ ان بیانات کی موجودگی میں یہ کتاب حضور اکرمﷺ سے تصدیق حاصل کر چکی ہے۔
الحاصل! براہین احمدیہ والا عقیدہ یقینا صحیح ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کی آیات مبارکہ اس کی بناء ہیں۔ محض رسمی عقیدہ نہیں تھا اور احادیث صحیحہ اس کی تائید کرتی ہیں۔
تیسری دلیل
’’قال سبحانہ وتعالیٰ ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدیٰ ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ماتولیٰ ونصلہ جہنم وساء ت مصیرا (النسائ:۱۵)‘‘ {جو کوئی رسول اﷲﷺ کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ اس پر ہدایت واضح اور ظاہر ہو چکی اور مؤمنوں کے رستے کے سوا دوسرے رستے کی پیروی کرے گا۔ ہم اسے اسی طرف پھیرے رکھیں گے۔ جس طرف وہ پھرا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔}
ناظرین کرام! اس آیت مبارکہ میں حضور نبی کریمﷺ کے طریقہ کی مخالفت کرنے والے ایک گروہ کی ایک علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سبیل المؤمنین کے سوا کسی اور راستہ پر چلے گا اور ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم میں بتایا گیا ہے۔
چنانچہ مرزاقادیانی کو تسلیم ہے کہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ سے لے کر تیرہ سو سال تک امت محمدیہ میں سے کسی شخص نے بھی وفات حضرت مسیح علیہ السلام کا اقرار نہیں کیا۔ بلکہ تمام امت محمدیہ کا حیات حضرت مسیح علیہ السلام پر اجماع رہا۔ جیسا کہ دوسری دلیل کے ضمن میں مرزاقادیانی کی کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیاگیا ہے۔ پس حیات حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف عقیدہ