موقع پر بھی انہیں اس کی حقیقت معلوم کرنے کا اشتیاق پیدا نہ ہوا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ اور تمام صحابہ کرامؓ کا عقیدہ یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور وہی آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ دین ایک معمہ نہیں ہے اور حضور اکرمﷺ نے اپنی امت کے سامنے معمے پیش نہیں کئے۔ بلکہ کھول کھول کر تمام مسائل بیان فرمائے ہیں۔
ناظرین کرام! مذکورہ دلائل (مشتے نمونہ ازخروارے) سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی اپنی نبوت کی دھند سے پہلے قرآن، حدیث اور اجماع امت سے یہی سمجھتے رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں بجسدہ العنصری (بہ جسم خاکی) زندہ موجود ہیں۔ دوبارہ نزول فرمائیں گے اور یہ عبارات بصیغۂ اخبار ہیں اور یہ مسئلہ قرآن، حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ اخبار میں نسخ ناجائز ہے۔ کیونکہ نسخ فی الاخبار کی حالت میں مخبر کی جہالت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر تحت آیت مبارکہ ’’ﷲ ما فی السمٰوت وما فی الارض‘‘ موجود ہے کہ ’’ان نسخ الخبر لا یجوز انما الجائز ھو نسخ الاوامر والنواہی‘‘ (تفسیر کبیر ج۲ ص۳۷۳) پس عبارت مذکورہ سے بالتصریح ثابت ہوگیا کہ نسخ فی الاخبار کسی صورت میں بھی جائز نہیں اور ایسے نسخ کی مثال قرآن اور حدیث سے ملنا محال ہے۔
پس حوالہ جات مذکورہ مرزاقادیانی سے بھی حیات مسیح ’’الیٰ الآن‘‘ اور نزول ثانی من السماء ثابت ہے اور ان عبارات کو منسوخ کہنے سے جیسا کہ مرزائی صاحبان ہانکتے ہیں۔ مرزاقادیانی کی جہالت اور بطالت اظہر من الشمس ثابت ہوتی ہے۔
خلاصۃ الکلام
آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ واجماع امت اور اقوال مرزاقادیانی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بجسد خاکی آسمان کی طرف زندہ اٹھایا جانا اور ابھی تک آسمان میں زندہ رہنا اور اخیر زمانہ میں آسمان سے نازل ہونا روز روشن کی طرح ثابت ہے جو شخص حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات الیٰ الآن اور آپ علیہ السلام کے نزول من السماء کا منکر ہے وہ دراصل قرآن، حدیث اور اجماع امت کا منکر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ فقط والسلام!
خادم اسلام: ماسٹر محمد ابراہیم مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا
۶؍دسمبر ۱۹۶۳ء