اس سے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی نے جو کچھ براہین احمدیہ میں لکھا تھا وہ خداتعالیٰ کی مرضی کے مطابق تھا۔ کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ‘‘ اس میں اجتہادی غلطی کا اثر نہیں ہوسکتا تھا۔
نیز براہین احمدیہ کی تصنیف سے پہلے مرزاقادیانی کو الہام ہوا تھا۔ ’’الرحمن علم القرآن‘‘ یعنی خداتعالیٰ نے تمام علوم قرآن کا علم انہیں عطاء کیا تھا اور بقول خود مصنف نے ملہم ومامور ہوکر بغرض اصلاح تالیف کی۔ (ملاحظہ ہو اشتہار براہین احمدیہ ملحقہ آئینہ کمالات اسلام، خزائن ج۵ ص۶۵۷ اور سرمہ چشم آریہ، خزائن ج۲ ص۳۱۹) پھر یہ کتاب بقول مرزاقادیانی حضور اکرمﷺ کے دربار میں پیش ہوکر منظور ہوئی اور اس کا نام عالم رؤیا میں قطبی رکھا گیا۔ اس مناسبت سے کہ یہ کتاب قطب ستارے کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے۔
(ملاحظہ ہو براہین احمدیہ حاشیہ ص۲۴۸، خزائن ج۱ ص۲۷۵)
نیز بقول مرزاقادیانی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے انہیں کتاب تفسیر دی تھی۔
(ملاحظہ ہو براہین احمدیہ حاشیہ در حاشیہ ص۵۰۳، خزائن ج۱ ص۵۹۹)
پس مرزاقادیانی نے اﷲتعالیٰ سے علم قرآن سیکھ کر حضرت علی المرتضیٰؓ سے کتاب تفسیر لے کر ملہم ومامور اور نبی ورسول ہوکر براہین احمدیہ کو تالیف کیا اور بعد تالیف یہ کتاب حضور اکرمﷺ کے دربار میں پیش ہوکر منظور ہوچکی اور اس کا نام قطبی رکھاگیا۔ کیونکہ اس میں مندرجہ ذیل مسائل ایسے تھے جو قطبی ستارے کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم تھے۔ پس تعجب ہے کہ حیات مسیح علیہ السلام جیسا مشرکانہ عقیدہ اس میں کیسے باقی رہا اورا س مشرکانہ عقیدہ کی تائید میں قرآن مجید سے آیات مبارکہ بھی نقل ہوئیں اور وہ آیات (جو اب مرزائی حضرات وفات مسیح علیہ السلام پر پیش کرتے ہیں) مرزاقادیانی کی نگاہ سے غائب رہیں۔ خدارا سوچیئے!
اب مرزائیوں کے لئے دو راستے ہیں یا تو تسلیم کر لیں کہ مرزاقادیانی اپنے دعاوی الہام اور علم قرآن وغیرہ میں کاذب اور جھوٹے تھے یا حیات حضرت مسیح علیہ السلام کا عقیدہ قرآن مجید کی رو سے صحیح تسلیم کر لیں۔ کیونکہ اس عقیدہ پر قرآن مجید اور حضور اکرمﷺ کی تصدیق حاصل ہو چکی ہے اور وہ اسماء اسی کتاب میں درج ہے جو بموجب الہام قطبی ستارے کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہیں۔
دیگر مرزائیوں کا یہ کہنا کہ مرزاقادیانی رسمی عقیدہ کے طور پر حیات حضرت مسیح علیہ