جاتی تھی۔ لیکن ’’فولّ وجہک شطر المسجد الحرام‘‘ کی آیت مبارکہ نازل ہونے سے سابقہ احکام منسوخ ہوگئے۔
اب مرزائی اعتراض سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی ناسخ شریعت محمدیہ تھے۔ یعنی جو امر شریعت محمدیہ سے ثابت تھا وہ مرزاقادیانی کے الہام سے بدل گیا۔ دوسرا امر یہ ہے کہ نسخ عقائد واخبار میںبھی ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پہلے زندہ تھے اور مرزاقادیانی پر الہام کے وقت فوت ہوگئے تھے؟ تیسرا امر یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ کی وہ نمازیںجن میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا درست تھیں۔ اسی طرح مرزائیوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ مرزاقادیانی کا عقیدہ الہام سے پہلے درست اور صحیح تھا۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود تھے۔ اس کے بعد اگر ان کی وفات ہوئی ہو تو اس کا بار ثبوت ان کے ذمہ ہوگا۔
دیگر بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا عملیات میں سے ہے۔ عقائد میں سے نہیں۔ ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ لیکن عقائد میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے۔ اگر ان کو الہام ہوتا کہ دو خدا ہیں۔ (نعوذ باﷲ) تو کیا ہم دو خدا تسلیم کرتے؟
نیز مرزاقادیانی کے نزدیک حیات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ یہودیانہ، مرتدانہ اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔ (ملاحظہ ہو ازالہ اوہام حصہ دوم ص۲۳۶، تحفہ گولڑویہ ص۸، خزائن ج۱۷ ص۹۸، دافع البلاء ص۱۵، خزائن ج۱۸ ص۲۳۵) نیز مرزاقادیانی کے نزدیک حیات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ فاسدانہ عقیدہ ہے۔ (دیکھو تریاق القلوب ص۳۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۸۵) حالانکہ سابقہ انبیاء میں سے کسی ایک کی مثال بھی نہیں ملتی کہ جو پہلے ان عقائد کا حامل رہا ہو… اور بعد میں نبوت کے عہدہ پر فائز ہوگیا ہو۔
ناظرین کرام! انبیاء کے آنے کی غرض وغایت ہی مشرکانہ عقائد کو مٹانا ہے۔ اگر وہ خود ہی (نعوذ باﷲ) شرک میں مبتلا ہو جائیں تو ان کے آنے کا مقصد کیا؟
یاد رکھیئے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شرک نہ تھا۔ لہٰذا مرزائیوں کی یہ مثال بالکل بے محل ہے۔
دیگر! مرزاقادیانی بقول خود براہین احمدیہ کی تصنیف کے وقت نبی اور رسول تھے۔
(ایام الصلح ص۷۵، خزائن ج۱۴ ص۳۰۹)