عقیدہ صحیح معلوم ہوا۔ لہٰذا مرزائیوں کا کوئی حق نہیں کہ وفات مسیح علیہ السلام پر کوئی آیت، کوئی حدیث یا کوئی قول پیش کریں۔ کیونکہ مرزاقادیانی کو اقرار ہے کہ انہوں نے یہ عقیدہ صرف اپنے الہام کی بناء پر تبدیل کیا ہے۔ اس کے سوا عقیدہ کی تبدیلی کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے۔
یاد رکھیئے کہ مرزاقادیانی کا الہام مرزائیوں کے لئے تو حجت ہوسکتا ہے۔ مگر مسلمانوں کے لئے ان کا الہام حجت نہیں ہوسکتا۔ اب جو آیات مبارکہ مرزائی حضرات وفات حضرت مسیح علیہ السلام پر پیش کیا کرتے ہیں یہ پہلے بھی موجود تھیں۔ اگر ان کا تعلق کسی قسم کی وفات حضرت مسیح علیہ السلام سے ہوتا تو مرزاقادیانی ’’الرحمٰن علم القرآن‘‘ کا الہام پاکر قرآن مجید کی آیات مبارکہ کو حیات حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے بطور دلیل پیش نہ کرتے۔
مرزائی اعتراض
اوّل مرزاقادیانی کی یہ عبارتیں اس وقت کی ہیں جب کہ پہلے پہل مسلمانوں کے رسمی عقیدہ کے پابند تھے اوران کا یہ عقیدہ الہام سے پہلے کا تھا۔ الہام کے بعد یہ عقیدہ منسوخ ہوگیا۔ جس طرح نبی کریمﷺ پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن جب وحی آگئی تو بیت اﷲ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ اسی طرح مرزاقادیانی بھی الہام کے پابند تھے۔
دیگر! براہین احمدیہ دعویٰ نبوت سے پہلے کی ہے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی کو الہام ہوا اور عقیدہ تبدیل کر لیا۔الجواب
قرآن مجید، احادیث نبویہ، آثار صحابہؓ، اقوال سلف صالحین اور اجماع امت کی موجودگی میں مرزاقادیانی حیات حضرت مسیح علیہ السلام کے قائل رہے اور ان کے ذریعہ انہیں وفات مسیح علیہ السلام کا علم نہ ہوسکا۔ پس ہمارا مقصد بھی یہی ہے کہ مرزاقادیانی کے عقیدہ کی تبدیلی قرآن وحدیث کی بناء پر نہیں بلکہ الہام کی بناء پر ہوئی۔
پس مابہ النزاع امر صرف یہی رہا کہ آیا مرزاقادیانی دعویٰ اور الہام میں سچے تھے یا جھوٹے۔ تو سنئے! حضور نبی کریمﷺ کامل ومکمل شریعت لے کر آئے تھے۔ آپﷺ نے سابقہ شریعتوں کو منسوخ کر دیا۔ چونکہ سابقہ شریعتوں میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی