۸… ’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گذر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔ تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
ناظرین کرام! مندرجہ بالا عبارتوں پر غور کرنے سے حسب ذیل نتائج واضح ہوتے ہیں:
الف… نبی کریمﷺ کے زمانہ سے لے کر مرزاقادیانی کے زمانہ تک تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ یہ رہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور ان کا یہ عقیدہ انہیں احادیث کی بناء پر تھا۔ جنہیں تواتر کا درجہ حاصل تھا۔ بائبل اور اخبار سے بھی اس عقیدہ کی تائید ہوتی ہے۔
(ملاحظہ ہو نمبر۱تا۳)
ب… حیات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ خداوند کریم نے مسلمانوں کے دلوں میں مستحکم کیا۔ کیونکہ اس کا ارادہ اخفاء کا تھا۔ اس کی قضا اور تدبیر غالب رہی۔ اس نے ان کے دلوں کو حقیقت روحانی کی طرف سے پھیر کر رفع جسمانی کی طرف کر دیا اور مرزاقادیانی کے زمانہ تک یہ حقیقت خوشہ کے اندر دانہ کی طرح مخفی رہی۔ پھر مرزاقادیانی کو الہام کے ذریعہ وفات مسیح کی حقیقت سے مطلع کیاگیا۔ (ملاحظہ ہو نمبر۴)
ج… مرزاقادیانی بھی ملہم ہونے کے بعد بارہ برس تک یعنی ۵۲سال کی عمر تک مسلمانوں کے عقیدہ کے پابند رہے۔ بلکہ قرآن مجید کی آیات سے بھی یہی سمجھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور مرزاقادیانی تو حیات مسیح علیہ السلام کا استدلال قرآن مجید سے دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے۔ پھر ۵۲سال کی عمر میں ان کو تواتر سے الہام ہوا۔ جس کی بناء پر انہوں نے عقیدہ تبدیل کر لیا۔ (ملاحظہ ہو نمبر۵تا۸)
اب تمام بحث وتمحیص سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید، احادیث نبویہ، آثار صحابہؓ، اقوال سلف صالحین اور اجماع امت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت ہوتی ہے۔ اسی لئے تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا۔ مرزاقادیانی بھی قرآن وحدیث، آثار صحابہؓ، اقوال سلف صالحین اور اجماع امت کے ماتحت اسی عقیدہ کے پابند رہے۔ عالم قرآن ہوکر بھی انہیں قرآن سے بھی یہی