یعنی نصاریٰ کا یہ گمان ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سات گھنٹہ مردہ رکھا اور پھر زندہ کر کے آسمان پر اٹھالیا اور اس قول کے متعلق کہ ’’انہا من زعم النصاریٰ‘‘ یہ نصاریٰ کے گمان میں ہے اور ’’ماھو الافتراء وبہتان عظیم‘‘ اور یہ افتراء اور بہتان عظیم ہے۔
مفسرین کرامؒ کا تو اتفاق ہے کہ: ’’قال القرطبی والصحیح ان اﷲ تعالیٰ رفعہ من غیر وفاۃ ولا نوم کما قال الحسن وابن زید وھو اختیار الطبری وھو الصحیح عن ابن عباسؓ‘‘ (تفسیر ابی السعود ج۲ ص۴۳)
یعنی حق یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو بغیر وفات اور نیند کے آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ حضرت حسنؒ اور حضرت ابن زیدؒ نے کہا اور اسی کو علامہ ابن جریر طبریؒ نے اختیار کیا اور یہ معنی صحت کے ساتھ حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے۔
سبحان اﷲ! مرزاقادیانی اور ان کے مقلدین مرزائیہ کے لئے مفسرین کرامؒ کا یہ کتنا ناطق فیصلہ ہے۔ مگر وہ قوم جو خالق کے کلام سے منکر ہے وہ مخلوق کے کلام کو کیا جانے۔
ناظرین کرام! قابل غور یہ امر ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے تھے۔ قتل کا سامان تیار تھا۔ اسی وقت خداوند کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تسلی کے لئے ان سے توفی اور رفع کا وعدہ فرمایا۔ اب اگر بقول مرزائیاں توفی کے معنی موت کے لئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہودی مارنے کے درپے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے التجاء کی تو اﷲتعالیٰ نے بھی فرمایا کہ میں تجھے مارنے والا ہوں۔ بتائیے! اس میں کون سی تسلی ہے اور قرآن مجید میں اس جگہ موت کے معنی کرنے سے کلام میں کون سی خوبی پیدا ہوتی ہے۔ جب کہ محافظ حقیقی بھی مارنے پر آمادہ ہوچکا ہو اور حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے تسلی واطمینان کا کون سا موقع ہوسکتا تھا۔ پس اس جگہ موت کے معنی لینا قواعد عربیت، سیاق وسباق، قرآن مجید اور رافعک کی قید کے ہوتے ہوئے کسی طرح جائز نہیں۔
نیز قرآن مجید میں توفی کے ساتھ رفع کا ذکر ہے اور آیت مبارکہ ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ کے مطابق رفع فتنہ صلیبی کے وقت ہوا۔ اگر اس جگہ توفی کے معنی موت کے لئے جائیں تو یہود کا قول ’’انا قتلنا المسیح‘‘ ثابت ہوتا ہے۔ موت کا سامان اس وقت وہی تھا جو یہودیوں