اب بھی دل کا غبار دور نہ ہو تو اس واؤ عاطفہ کی غیر ترتیبی کے متعلق مفسرین کرامؒ کا اور فیصلہ بھی سن لیجئے۔
’’ان الواؤ فی قولہ تعالیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ لا تفید الترتیب فالآیۃ تدل علیٰ انہ تعالیٰ یفعل بہ ہذہ الا فعال فا ما کیف یفعل ومتی فالامر فیہ موقوف علی الدلیل وقد ثبت بالدلیل انہ حتی وورد الخبر عن النبیﷺ انہ سینزل ویقتل الدجال ثم انہ تعالیٰ یتوفاہ بعد ذالک‘‘
(تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲،۸۳، تفسیر خازن ج۱ ص۲۵۶)
یعنی آیت مبارکہ ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ میں ’’واؤ‘‘ ترتیب کے لئے نہیں ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اﷲتعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی وعدے کئے ہیں کہ میں تیرے ساتھ یوں یوں کروں گا۔ مگر یہ بات کہ کیسے کرے گا اور کب کرے گا۔ یہ چیز محتاج دلیل ہے۔ مگر تحقیق دلیل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہیں۔ رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ پھر اﷲتعالیٰ ان کو فوت کرے گا۔
مرزائیو! اگر اب بھی تسلی نہ ہوئی ہو تو اطمینان قلب کے لئے مرزاقادیانی کے دستخط کرائے دیتا ہوں۔ چنانچہ مرزاقادیانی کہتا ہے: ’’یہ ضروری نہیں کہ حرف واؤ کے ساتھ ہمیشہ ترتیب کا لحاظ واجب ہو۔‘‘ (تریاق القلوب حاشیہ ص۱۴۳، خزائن ج۱۵ ص۲۵۴)
حاصل یہ کہ حضرت ابن عباسؓ حیات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ ان پر وفات کا اتہام لگانے والا مفتری وکذاب ہے۔
دیگر بخاری شریف کے اصح الکتب کا یہ مطلب ہے کہ اس کتاب کی احادیث مرفوعہ نہایت صحیح اور قابل اعتماد ہیں اور اس پر اجماع ہے۔ مگر تعلیقات اور موقوفات کے متعلق یہ اجماع نہیں ہے۔ یہ روایت تعلیقات میں ہے۔ پس یہ اس اجماع سے خارج ہے۔ حافظ ابن صلاح کے مقدمہ علم الحدیث میں اس امر کی تصریح موجود ہے۔
۳… بعض مفسرین کرامؒ نے صرف تردید کی غرض سے عیسائیوں کا یہ قول نقل کیا ہے۔ مگر اس قول کے بعد وفیہ ضعف درج ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: ’’والنصاریٰ یزعمون ان اﷲ تعالیٰ توفاہ سبع ساعات ثم احیاہ‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج۲ ص۱۵۰)