۲… ’’ممیتک‘‘ والی تفسیر حضرت ابن عباسؓ سے ثابت نہیں۔ حافظ ابن کثیرؒ نے اس قول کو (تفسیر ابن کثیر ج اوّل ص۱۵۰) مصری پر نقل کیا ہے۔ اس میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرنے والے راوی کا نام طلحہ ہے۔ یہ ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہونے کے علاوہ حضرت ابن عباسؓ سے اس کا سماع بھی ثابت نہیں۔ اس نے حضرت ابن عباسؓ کو دیکھا بھی نہیں۔ پس یہ روایت روایات صحیحہ کے مقابلہ میں پیش نہیں ہوسکتی۔
اگر ’’متوفیک‘‘ کے معنی ’’ممیتک‘‘ مانے جائیں تو وہ اس وقت ہیں۔ جب کہ آیت مبارکہ میں تقدیم وتاخیر مانی جائے۔ چنانچہ تفسیر خازن وتفسیر کبیر میں تحت آیت ہذا مرقوم ہے۔
’’ان فی الآیۃ تقدیماً وتاخیراً انی رافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد انزالک الیٰ الارض‘‘ (تفسیر خازن ج۱ ص۲۵۵، تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)
یعنی حضرت ابن عباسؓ نے ’’متوفیک‘‘ کے جو معنی ’’ممیتک‘‘ کئے ہیں۔ وہ اس وقت ہیں۔ جب کہ اس آیت میں تقدیم وتاخیر مانی جائے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا۔ اے عیسیٰ! میں تجھ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھ کو آسمان سے زمین پر اتارنے کے بعد فوت کرنے والا ہوں۔ آخر میں امام رازیؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’ومثلہ من التقدیم والتاخیر کثیر فی القرآن‘‘ جیسا کہ آیت مبارکہ ’’یٰمریم اقنتی لربک والسجدی والرکعی مع الراکعین‘‘ میں تقدیم وتاخیر ہے۔ (تفسیر کبیر ج۸ ص۷۳)
اسی طرح علامہ نفسیؒ اور صاحب تفسیر ابی السعود فرماتے ہیں: ’’متوفیک ای ممیتک فی وقتک بعد النزول من السماء ورافعک الآن‘‘
(تفسیر مدارک بہامشہ تفسیر خازن ج۱ ص۲۵۵، تفسیر السعود مصری بہامشہ تفسیر کبیر ج۸ ص۷۱)
یعنی اب تو تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور آسمان سے اترنے کے بعد تیری موت کے وقت تجھے ماروں گا۔
بعض مفسرین کرامؒ نے ایک اور معنی بھی کئے ہیں۔ چنانچہ قاضی بیضاویؒ اور علامہ نفسی صاحب تفسیر المدارک فرماتے ہیں: ’’متوفیک ای ممیتک عن الشہوات العائقۃ العروج الیٰ عالم الملکوت‘‘ (تفسیر بیضاوی ج۱ ص۱۴۰، تفسیر ابی السعود مصری بہامشہ تفسیر کبیر ج۱ ص۷۱)