مرزائی اعتراض
۱… براہین احمدیہ میں مرزاقادیانی نے ’’متوفیک‘‘ کے جو معنی کئے ہیں وہ مامور ومرسل ہونے اور وفات حضرت مسیح علیہ السلام کے الہام سے پہلے کے ہیں۔
۲… رئیس المفسرین حضرت ابن عباسؓ نے ’’متوفیک‘‘ کے معنی ’’ممیتک‘‘ کئے ہیں۔ (تعلیقات بخاری) پس حضرت ابن عباسؓ کے قول کے مقابلہ میں کسی کی تفسیر معتبر نہیں ہے۔ کیونکہ حضور اکرمﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی تھی اور یہ قول اس کتاب میں ہے جو ’’اصح الکتب بعد کتاب اﷲ‘‘ ہے۔
۳… بعض مفسرین مثلاً ابن کثیر وغیرہ نے بحث آیہ ’’متوفیک‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تین گھنٹے یا سات گھنٹے فوت ہو گئے تھے۔ (ابن کثیر ج۲ ص۱۵۰)
الجواب
۱… مرزاقادیانی براہین احمدیہ کی تصنیف کے وقت ملہم، مامور، مجدد، نبی اور رسول ہونے کے مدعی تھے۔ (ایام الصلح ص۷۵، خزائن ج۱۴ ص۳۰۹) اور ’’الرحمن علم القرآن‘‘ کا انہیں الہام ہوچکا تھا۔ نیز (براہین احمدیہ حاشیہ درحاشیہ ص۲۳۸، خزائن ج۱ ص۲۶۵) حضور اکرمﷺ کے دربار میں پیش ہوکر رجسٹرڈ ہوگئی تھی۔ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے۔
ناظرین کرام! جب کشف میں (بقول مرزاقادیانی) براہین احمدیہ رسول اکرمﷺ کے دربار میں پیش ہوکر قبولیت حاصل کر رہی تھی۔ کیا اس وقت ’’توفی‘‘ کی بحث جس کے معنی ’’میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا‘‘ لئے گئے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کی نظر مبارک سے نہ گزرے؟ اگر گزرے تھے تو بقول مرزائیاں غلط ہونے کی وجہ سے رسول اکرمﷺ کے انہیں کاٹ کیوں نہ دیا؟ انصاف! اور سنئے! مرزاقادیانی اپنی کتاب ’’سراج منیر‘‘ لکھنے کے وقت مدعی رسالت اور حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے۔ چنانچہ مرزاقادیانی مذکورہ کتاب میں اس الہام ’’یا عیسیٰ انی متوفیک‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں کہ: ’’الہام کے معنی یہ ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا۔‘‘ (سراج منیر ص۲۱، خزائن ج۱۲ ص۲۳)
پس ثابت ہوا کہ متوفیک کے معنی موت سے بچانے کے ہیں نہ کہ موت۔ لہٰذا مرزائیوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ اس جگہ توفی کے معنی موت مراد لیں۔