آگے چل کر امام رازیؒ فرماتے ہیں: ’’قولہ انی متوفیک یدل علیٰ حصول التوفی وھو جنس تحتہ انواع بعضہا بالموت وبعضہا باالاصعاد الیٰ السماء فلما قال بعدہ ورافعک الیّ کان ہذا تعییناً للنوع ولم یکن تکراراً‘‘
(تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)
یعنی خداتعالیٰ کا قول ’’انی متوفیک‘‘ صرف حصول توفی پر دلالت کرتا ہے۔ پس جب خدائے تعالیٰ نے اس کے بعد ورافعک الیّ فرمادیا تو یہ نوع کی تعیین کے لئے ہوا نہ کہ تکرار کے لئے۔
اسی طرح قاضی بیضاویؒ نے بذیل آیت ’’فلما توفیتنی‘‘ فرمایا ہے: ’’فلما توفیتنی بالرفع الیٰ السماء لقولہ تعالیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ والتوفی اخذ الشیٔ وافیاً والموت نوع منہ قال اﷲ تعالیٰ اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا‘‘ (تفسیر بیضاوی ج۱ ص۱۴۰)
یعنی فلما توفیتنی کے معنی یہ ہیں کہ خدایا جب تو نے مجھے آسمان پر اٹھالیا۔ بدلیل ’’انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ کیونکہ توفی کے معنی ہیں کسی شے کو پورا پورا لے لینا اور موت اس کی ایک نوع ہے۔ چنانچہ خداوند تعالیٰ نے فرمایا: ’’اﷲ یتوفی الانفس‘‘ توفی سے مراد موت لینا معنی مجازی ہے۔ ’’ومن المجازا درکتہ الوفاۃ‘‘ اور معنی مجازی لینا وہاں جائز ہے جہاں حقیقت متعذر ہو۔ مجاز کی طرف جب ہی رجوع کیا جاتا ہے کہ جب معنی حقیقی کا ارادہ ناجائز اور ممتنع ہو جائے۔ ورنہ جب تک حقیقت پر عمل ممکن ہوگا اس وقت تک مجاز کی طرف ہر گز رجوع نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ شروع عقائد نفسی میں ہے۔ ’’النصوص من الکتاب والسنۃ تحمل علیٰ ظواہرہا وصرف النصوص عن ظواہرہا الحاد‘‘ ظاہر نص سے بلا کسی دلیل قطعی کے عدول کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ بلکہ الحاد اور زندقہ ہے۔ لہٰذا اس آیت مبارکہ میں توفی کے حقیقی معنی لئے جائیں گے اور موت کے معنی میں اس جگہ یہ لفظ استعمال نہیں ہوسکتا۔
پس اس آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بجسدہ العنصری زندہ آسمان پر اٹھالیا اور قرآن مجید میں ’’رفع‘‘ اور ’’التوفی‘‘ سے ان کے رفع جسمانی کو ظاہر فرمایا۔