اس جگہ اﷲتعالیٰ نے رفع مع توفی کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ امام فخرالدین رازیؒ فرماتے ہیں: ’’ان التوفی اخذ الشیٔ وافیاً ولما علم اﷲ ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذی رفعہ اﷲ ہو روحہ لا جسدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علیٰ انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام رفع بتمامہ الیٰ السماء بروحہ وبجسدہ‘‘ (تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)
یعنی توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا لے لینا اور اﷲتعالیٰ کو اپنے علم قدیم سے اس بات کا علم تھا کہ کسی شخص کے دل میں یہ خیال بھی گزرے گا کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صرف روح کو اٹھایا تھا اور جسم کو نہیں اٹھایا تھا۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے یہ کلام ’’انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ فرمایا۔ تاکہ اس امر پر دلالت کرے کہ اﷲتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بتمامہ مع جسم اور روح کے زندہ آسمان پر اٹھالیا۔
اسی طرح علامہ علاؤ الدین بغدادی، صاحب تفسیر الخازن فرماتے ہیں: ’’ان معنی التوفی اخذ الشیٔ وافیاً ولما علم اﷲ تعالیٰ ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذی رفعہ اﷲ الیہ ہو روحہ دون جسدہ کما زعمت النصاری ان المسیح رفع لا ھوتہ یعنی روحہ وبقیٰ فی الارض ناسوتہ یعنی جسدہ فرد اﷲ علیہم بقولہ انی متوفیک ورافعک الیّ فاخبر اﷲ انہ رفع بتمامہ الیٰ السماء بروحہ وجسدہ جمیعاً‘‘ (تفسیر الخازن ج۱ ص۲۵۶)
یعنی توفی کا معنی ہے کسی چیز کو پورا پورا لے لینا اور اﷲتعالیٰ خوب جانتا تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں شیطان یہ وسوسہ ڈالے گا کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صرف روح اٹھائی ہے۔ جسم نہیں اٹھایا۔ جیسا کہ نصاریٰ کا گمان ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی روح اٹھائی گئی ہے اور جسم زمین پر باقی رہ گیا ہے۔ پس اس آیت مبارکہ میں اﷲتعالیٰ نے نصاریٰ کا (اور ان کے مقلدین مرزائیہ کا) رد فرمادیا اور بتادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بتمامہ اٹھا لئے گئے ہیں۔ یعنی روح اور جسم دونوں کے ساتھ نہ صرف روح کے ساتھ۔
سبحان اﷲ! قرآن مجید کیسا معجز کلام ہے۔ لیکن ہر دو مفسرین بھی قرآن مجید کے کیسے رمز شناس ہیں کہ جو بات مرزاقادیانی کئی صدیاں بعد کہنے والے تھے اس کی تردید پہلے ہی فرمادی۔ یہ ایک عظیم الشان پیش گوئی ہے۔ جو پوری پوری واقع ہوئی۔ ’’سبحان ما اصدق کلامہ‘‘