یہ آیت مبارکہ اس بات پر زبردست اور محکم دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔ کیونکہ آیت مبارکہ میں لفظ عیسیٰ علیہ السلام سے مراد فقط جسم ہے اور نہ ہی فقط روح۔ بلکہ جسم مع الروح یعنی زندہ عیسیٰ علیہ السلام اور ہر چہار ضمیروں کے خطاب کا مخاطب وہی ایک عیسیٰ علیہ السلام زندہ بعینہ ہے۔ کیونکہ ضمیر خطاب معرفہ ہے اور بوجہ تقدیم عطف وتاخیر ربط اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ چاروں واقعات (توفی، رفع، تطہیر، غلبہ تابعین) قیامت سے پہلے پہلے بعینہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ کے ساتھ ہو جائیں گے اور صیغہ اسم فاعل آئندہ زمانے کے لئے بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے۔ ’’وانا لجاعلون ما علیہا صعیداً جرزاً (کہف:۸)‘‘ {یعنی ہم یقینا اسے جو اس (زمین) پر ہے ہموار میدان سبزہ سے خالی بنانے والے ہیں۔}
نیز مرزاقادیانی کو بھی اس آیت مبارکہ ’’یا عیسیٰ انی متوفیک‘‘ کا الہام ہوا تھا۔ (براہین احمدیہ حاشیہ در حاشیہ ص۵۵۷، خزائن ج۱ ص۶۶۴) حالانکہ مرزاقادیانی اس الہام کے بعد تقریباً ۲۳،۲۴ سال زندہ رہے۔ اگر توفی کا معنی موت ہی ہے تو مرزاقادیانی اتنا عرصہ کیوں زندہ رہے۔ ان پر موت کیوں وارد نہ ہوئی؟ جب کہ توفی کاالہام بھی ہوچکا تھا اور مرزاقادیانی اس کا ترجمہ یہ لکھتے ہیں کہ: ’’اے عیسیٰ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حاشیہ ص۵۲۵، خزائن ج۱ ص۶۲۵)
دوسری جگہ اسی براہین احمدیہ میں اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو کامل اجر بخشوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حاشیہ در حاشیہ ص۵۵۷، خزائن ج۱ ص۶۶۵)
امام فخر الدین رازیؒ نے اپنی تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ توفی کی تین نوعیں ہیں۔ ایک موت، دوسری نوم، تیسری اصعاد الیٰ السمائ۔ یعنی آسمان پر اٹھانا۔ اس جگہ آسمان پر اٹھانا مراد ہے۔ (تفسیر کبیر ج۸ ص۷۱)
توفی کے حقیقی معنی ایک چیز کو پورا پورا لینا ہے۔ جس جگہ بھی موت کے معنی لئے گئے ہیں۔ وہ بطور کنایہ کے ہیں۔ قرآن مجید میں جس جگہ بھی توفی کا لفظ موت کے معنوں میں آیا ہے وہاں قرینہ موجود ہے۔ توفی ایک جنس ہے۔ لہٰذا اس کے تعیین کے لئے کسی قرینہ کی حاجت ہوگی۔