گالی دے تو ایک مسلمان اس کے عوض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے۔‘‘
(رسالہ حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست ص۵، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۲)
یہ امر واضح رہے کہ چونکہ اس رسالہ میں بھی ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کی طرح گورنمنٹ کی خوشامد اور چاپلوسی مقصود تھی۔ جیسا کہ اس رسالہ کے نام سے ظاہر ہے۔ اس لئے یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الزامی طور پر بھی توہین سے بیزاری کا اظہار فرمارہے ہیں۔ حالانکہ مقدمۂ چشمہ مسیحی کے ص ب والی منقولہ عبارت میں آپ اس طرز عمل کو جائز قرار دے چکے ہیں ؎
ہم بھی قائل تیری نیرنگی کے ہیں یاد رہے
او زمانے کی طرح رنگ بدلنے والے
غرض رسالہ عاجزانہ درخواست والی عبارت پکار پکار کر یہ بتارہی ہے کہ عیسائیوں کے خرافات کے جواب میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دینے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اخلاق پر حملہ
میں نے گستاخ مرزا میں وہ عبارتیں نقل کی تھیں۔ جن میں مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یسوع کے نام سے گالیاں دی ہیں اور ٹریکٹ ہذا میں یہاں تک یہ ثابت کیاگیا ہے کہ یسوع سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ اب ذیل میں کچھ نمونہ ان عبارات کا بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جن میں مرزاقادیانی نے حضرت ممدوح علیہ السلام پر حملے کئے ہیں اور ان کی صریح توہین کی ہے اور ستم پر ستم یہ کہ ان عبارات میں یسوع کا لفظ نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام اور مسیح کے الفاظ استعمال کئے ہیں: ’’تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔ انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اس پر بددعا کی اور دوسروں کو دعا کرنا سکھلایا اور دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو۔ مگر خود اس قدر بدزبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں اور برے برے نام رکھے۔ اخلاقی معلم کا فرض یہ ہے کہ پہلے آپ اخلاق کریمہ دکھاوے۔ پس کیا ایسی تعلیم ناقص جس پر انہوں نے آپ بھی عمل نہ کیا خداتعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہے؟‘‘
(چشمہ مسیحی ص۱۱، خزائن ج۲۰ ص۳۴۶)
حضرت مسیح علیہ السلام کو (معاذ اﷲ) شرابی قرار دینا
۱… ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ