اور حوالے پیش خدمت ہیں۔
مرزاقادیانی کی اقراری عبارات
آپ لکھتے ہیں کہ:
۱… ’’جن نبیوں کا اسی وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا تصور کیاگیا ہے وہ دو نبی ہیں۔ ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے۔ دوسرے مسیح بن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲)
۲… ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام یسوع اور جیزس یا یوز آسف کے نام سے بھی مشہور ہیں۔‘‘
(راز حقیقت ص۱۹، خزائن ج۱۴ ص۱۷۱)
۳… ’’آج تک انہی خیالات سے وہ لوگ (شریر یہودی) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام کو جو یسوع ہے یسو بولتے ہیں یعنی بغیر عین کے اور یہ ایک ایسا گندہ لفظ ہے جس کا ترجمہ کرنا ادب سے دور ہے۔ (کیا کہنے ہیں آپ کے ادب کے۔ قاسمی) اور میرے دل میں گذرتا ہے کہ قرآن شریف نے جو حضرت مسیح علیہ السلام کا نام عیسیٰ رکھا وہ اسی مصلحت سے ہے کہ یسوع کے نام کو یہودیوں نے بگاڑ دیا تھا۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان مورخہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۲ء ص۱۶ کالم نمبر۳)
۴… ’’لیکن جب چھ سات مہینہ کا حمل نمایاں ہوگیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نامی ایک نجار سے نکاح کر دیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا۔ وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا۔‘‘ (چشمہ مسیحی ص۲۶، خزائن ج۲۰ ص۳۵۶)
۵… ’’یہ اعتقاد رکھنا پڑتا ہے کہ جیسا کہ ایک بندہ خدا کا عیسیٰ نام جس کو عبرانی میں یسوع کہتے ہیں۔ تیس برس تک موسیٰ رسول اﷲ کی شریعت کی پیروی کر کے خدا کا مقرب بنا۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۴۸ حاشیہ، خزائن ج۲۰ ص۳۸۱)۶… ’’اب دوسرا مذہب یعنی عیسائی باقی ہے۔ جس کے حامی نہایت زور شور سے اپنے خدا کو جس کا نام انہوں نے یسوع مسیح رکھا ہوا ہے۔ بڑے مبالغہ سے سچا خدا سمجھتے ہیں اور عیسائیوں کے خدا کا حلیہ یہ ہے کہ وہ ایک اسرائیلی آدمی مریم بنت یعقوب کا بیٹا ہے۔‘‘ (ست بچن ص۱۵۹، خزائن ج۱۰ ص۲۸۳)
۷… ’’بزرگوں نے بہت اصرار کر کے بسرعت تمام مریم (علیہا السلام) کا اس (یوسف نجار) سے نکاح کرادیا اور مریم(علیہا السلام) کو ہیکل سے رخصت کر دیا۔ تاکہ خدا کے مقدس گھر پر نکتہ چینیاں نہ ہوں۔ کچھ تھوڑے دنوں کے بعد ہی وہ لڑکا پیداہوگیا۔ جس کا نام یسوع رکھا گیا۔‘‘
(اخبار الحکم مورخہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۲ء ص۱۶ کالم ص۲،۳)