عاقبت خراب کریں۔ حضورﷺ کو بھی عیسائیوں سے ’’الوہیت مسیح‘‘ کے مسئلہ پر گفتگو کا موقع ملا۔ لیکن آپﷺ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی شان میں کوئی نامناسب لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ بلکہ آپﷺ کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ مجھے کسی نبی پر اس رنگ میں فضیلت بھی نہ دو کہ ان کی شان میں فرق آئے۔ (سبحان اﷲ کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔ یہ ہے نبوت کا معیار)
پس جو شخص حضورﷺ کی محبت کی آڑ میں حضرت مسیح علیہ السلام یا کسی اور نبی کی توہین کرتا ہے۔ وہ یقینا خود حضورﷺ کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے اور اسے کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ حضورﷺ کی محبت کا دعویٰ کرے۔
بتوں کو بھی گالیاں دینے کی اجازت نہیں
دوسرا عذر لنگ مرزاقادیانی کا یہ ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے۔ اس یسوع کے متعلق لکھا ہے۔ جس کا قرآن میں ذکر نہیں۔ اوّل تو یہ جھوٹ ہے جیسا کہ اوپر مرزاقادیانی ہی کی تحریر سے لکھ کر ثابت کر چکا ہوں اور انشاء اﷲ آئندہ نمبر میں اس پرمفصل بحث کروں گا۔ لیکن تھوڑی دیر کے لئے اگر مان بھی لیا جائے کہ یسوع اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو مختلف شخصوں کے نام ہیں اور عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں بلکہ کسی یسوع نامی شخص کو خدا مانتے ہیں (اگرچہ ایسا تسلیم کرنا قرآن مجید کی تصریحات اور تاریخی شہادات بلکہ خود مرزاقادیانی کے مسلمات کے بھی خلاف ہے) لیکن آخر یسوع عیسائیوں کا معبود اور مقتداء تو ہے اور یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ تم مشرکین کے معبودوں اور بتوں کو بھی گالیاں نہ دو۔ ورنہ وہ تمہارے معبود برحق کو گالیاں دیں گے تو اس صورت میں بھی مرزاقادیانی نے اسلام اور ہادی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ بلکہ ان کے احکام کی مخالفت کر کے دنیا اور آخرت کا وبال خریدا ؎
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا