کے پیروں پر ملے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں۔ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔‘‘ (حوالہ بالا نمبر۱)
مرزاقادیانی کا عذر گناہ بدتر از گناہ
منقولہ بالا عبارات میں حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کو مرزاقادیانی نے جو گندی گالیاں دی ہیں اور ان کے متعلق آپ نے جو عذر پیش کئے ہیں میں ان سے بھی ناظرین کرام کو بے خبر نہیں رکھنا چاہتا۔
آپ اسی کتاب (ضمیمہ انجام آتھم ص۸)کے حاشیہ پر فرماتے ہیں: ’’بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے ناحق ہمارے نبیﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے بارے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۸، خزائن ج۱۱ ص۲۹۲)
پھر مسلمانوں کا منہ بند کرنے کے لئے ص۹ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں: ’’اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خداتعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں۵؎ دی، کہ وہ کون تھا اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے۔ پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلامانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۹، خزائن ج۱۱ ص۲۹۳)
الزامی طور پر بھی کسی نبی کی توہین جائز نہیں
مرزاقادیانی کا پہلا عذر یہ ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے عیسائی پادریوں کے شرارت آمیز طرز عمل سے مجبور ہوکر لکھا ہے۔ لیکن یہ عذر اس قدر لغو ہے کہ آپ اس کی تائید میں قرآن پاک کی کوئی آیت یا حضورﷺ کا عمل پیش نہیں کر سکتے۔ بلکہ یہ عذر حکم خداوندی ’’ولا یجرمنکم شنان قوم علی الّا تعدلوا (المائدہ:۸)‘‘ وغیرہ آیات قرآنیہ کے صریح خلاف ہے۔
اسلام اس امر کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ عیسائی حضورﷺ کو گالیاں دے کر اپنے خبث باطن کا ثبوت دیں تو اس کے جواب میں مسلمان حضرت مسیح علیہ السلام کو گالیاں دے کر اپنی