آجاتا تھا۔ اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔ مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں۔ کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۲؎۔‘‘ (حوالہ بالا نمبر۱)
پھر چند سطروں کے بعد کہتے ہیں۔ ’’نہایت شرم کی بات ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب طالمود سے چورا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔ لیکن جب یہ چوری پکڑی گئی عیسائی بہت شرمندہ ہیں۔ آپ نے یہ حرکت اس لئے کی ہوگی کہ کسی عمدہ تعلیم کا نمونہ دکھلا کر رسوخ حاصل کریں۔ لیکن آپ کی اس بے جا حرکت سے عیسائیوں کی سخت روسیاہی ہوئی اور پھر افسوس یہ ہے کہ وہ تعلیم بھی کچھ عمدہ نہیں عقل اور کانشنس دونوں اس تعلیم کے منہ پر طمانچے مار رہے ہیں۔ آپ کا ایک یہودی استاد تھا۔ جس سے آپ نے توریت کو سبقاً سبقاً پڑھا تھا۳؎۔ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو قدرت نے آپ کو زیرکی سے کچھ بہت حصہ نہیں دیا تھا اور یا استاد کی شرارت ہے کہ اس نے آپ کو محض سادہ لوح رکھا۔ بہرحال آپ علمی وعملی قوی میں بہت کچے تھے۔ اسی وجہ سے آپ ایک مرتبہ شیطان کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔ آپ کی انہیں حرکات سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے سخت ناراض رہتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ آپ کے دماغ میں ضرور کچھ خلل ہے اور وہ ہمیشہ چاہتے رہے کہ کسی شفاخانہ میں آپ کا باقاعدہ علاج ہو۴؎۔ خداتعالیٰ شفا بخشے۔ عیسائیوں نے آپ کے بہت سے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ اس کتاب کے ص۷ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں۔ ’’آپ کے ہاتھ میں سوا مکر اور فریب کے اور کچھ نہیں تھا۔ پھر افسوس کہ نالائق عیسائی ایسے شخص کو خدا بنا رہے ہیں۔ آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی۔ آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس