شرمناک گالیاں دی ہیں کہ اس میدان میں کوئی دشمن اسلام بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکا۔
اس نمبر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی توہین پر مشتمل عبارات نقل کرتا ہوں۔ پبلک اور گورنمنٹ دونوں غور سے ملاحظ کریں اور سوچیں کہ وہ کتابیں جن میں یہ ناپاک عبارتیں موجود ہیں۔ ضبط کئے جانے کے قابل ہیں یا نہیں؟ اور کیا ایسے گستاخ شخص پر ایمان لانے والی امت کے دل میں بانیان مذاہب کے احترام کا سچا جوش اور جذبہ پایا جاسکتا ہے؟
توہین آمیز عبارتیں مرزاقادیانی اپنی کتاب (ضمیمہ انجام آتھم ص۴،۵،۶، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸تا۲۹۱) پر لکھتے ہیں (نقل کفر کفر نباشد) کہ:
۱… ’’پس اس نادان اسرائیلی (یعنی حضرت یسوع مسیح) نے ان معمولی باتوں کا پیش گوئی کیوں نام رکھا۔ محض یہودیوں کے تنگ کرنے سے اور جب معجزہ مانگا گیا تو یسوع صاحب فرماتے ہیں کہ حرام کار اور بدکار لوگ مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں۔ ان کو کوئی معجزہ دکھایا نہیں جائے گا۔ دیکھو یسوع کو کیسی سوجھی اور کیسی پیش بندی کی۔ اب کوئی حرام کار اور بدکار بنے تو اس سے معجزہ مانگے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جیسا کہ ایک شریر مکار نے جس میں سراسر یسوع کی روح تھی۔ لوگوں میں یہ مشہور کیا کہ میں ایک ایسا ورد بتاسکتا ہوں۔ جس کے پڑھنے سے پہلی رات میں خدا نظر آجائے گا۔ بشرطیکہ پڑھنے والا حرام کی اولاد نہ ہو۔ اب بھلا کون حرام کی اولاد بنے اور کہے کہ مجھے وظیفہ پڑھنے سے خدا نظر نہیں آیا۔ آخر ہر ایک وظیفچی کو یہی کہنا پڑتا تھا کہ ہاں صاحب نظر آگیا۔ سو یسوع کی بندشوں اور تدبیروں پر قربان ہی جائیں۔ اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے کیسا داؤ کھیلا۔ یہی آپ کا طریق تھا۔ ایک مرتبہ کسی یہودی نے آپ کی قوت شجاعت آزمانے کے لئے سوال کیا کہ اے استاد! قیصر کو خراج دینا روا ہے یا نہیں؟ آپ کو یہ سوال سنتے ہی اپنی جان کی پڑ گئی کہ کہیں باغی کہلا کر پکڑا نہ جاؤں۱؎۔‘‘
چند سطروں کے بعد مرزاقادیانی کس شان ’’معصومیت‘‘ سے لکھتے ہیں۔ ’’ہاں آپ کو گالیاں دینی (کیا فصیح اردو ہے۔ قاسمی) اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی۔ ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ