کا مقصد یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس طرح تمام بانیان مذاہب کا احترام قائم ہو جائے گا۔ حالانکہ فی الحقیقت ان جلسوں کا مقصد مرزاقادیانی کی نام نہاد نبوت کی اشاعت کے لئے فضا کو ہموار وموافق بنانے اور لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے سواا ور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ورنہ اگر ان لوگوں کے دلوں میں بانیان مذاہب کے احترام کی سچی تڑپ موجود ہوتی تو وہ ایسے شخص کی مصنوعی نبوت ومسیحیت پر کبھی اور کسی حالت میں بھی ایمان نہ لاتے۔ جس نے تمام بزرگان مذاہب کو اپنی بدزبانی کا تختہ مشق بنانے میں کمال ہی کر دیا ہے۔
گورنمنٹ کا فرض
قبل اس کے کہ میں مرزاقادیانی آنجہانی کی گستاخانہ عبارتیں نقل کروں۔ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج کل حکومت مرزائیوں کی حد سے زیادہ ناز برداری کر رہی ہے۔ رسالہ ’’محمدی گولہ‘‘ عرف ’’رد مرزا‘‘ میں اس کو قادیانی نبی کی توہین نظر آتی ہے۔ تو اس کو فوراً ضبط کر لیتی ہے۔ کارکنان مباہلہ کو صرف اس جرم میں کہ انہوں نے مدعی الہام مرزا محمود آف قادیان کے چال چلن پر نکتہ چینی کی تو مصائب میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن کس قدر شدید بے انصافی اور غضب ہے کہ مرزاقادیانی آنجہانی نے مقدس انبیاء اور دیگر بزرگوں پر ناپاک دلخراش اور ناقابل برداشت حملے کئے۔ جس سے تقریباً تمام مذاہب کے ماننے والوں کے کلیجے یکساں طور پر چھلنی ہوئے اور حکومت منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی رہی اور اب تک اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اگر گورنمنٹ دعویٰ انصاف میں حق بجانب ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ مرزاقادیانی آنجہانی کی اس ناپاک کتابوں کو بھی فوراً ضبط کرے۔ جن میں مختلف بزرگان مذاہب کی توہین، بے حرمتی کی گئی ہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی دل آزار وشرمناک توہین
یوں تو مرزاقادیانی کے طعن وتشنیع اور گالی گلوچ سے دنیا کا کوئی بزرگ بھی نہیں بچ سکا۔ حتیٰ کہ سردار دو جہاںﷺ کی ہجو ملیح بلکہ تنقیص صریح میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (میں انشاء اﷲ اس مضمون کو متعدد نمبروں میں مکمل کروں گا) لیکن اس نے بالخصوص حضرت سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو تو پانی پی پی کر کوسا ہے۔ حضرت ممدوح علیہ السلام کو وہ بے نقط سنائی ہیں اور ایسی ایسی