کا مکذب ہے۔ حدیث کی تصریحات کے سامنے مرزاقادیانی کاکوئی ہیرپھیر کام نہیں دیتا۔ لطف یہ کہ جب مرزاقادیانی کو خسوف کسوف اور مہدویت وغیرہ کے متعلق بلند بانگ دعاوی کرنے ہوتے تھے تو ضعیف سے ضعیف روایتوں کو بھی قطعیت کا درجہ دینے سے نہ چوکتے تھے۔ حدیثوں کو ’’مداری کا پٹارہ‘‘ کہنے والا وہ شخص ہے جس کی اپنی تصانیف ’’مداری کا پٹارہ‘‘ ہیں… اس میں نبوت کا دعویٰ بھی موجود ہے اور اس سے انکار بھی حیات مسیح کا عقیدہ بھی ملتا ہے اور وفات مسیح کا بھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی توہین بھی آپ کو ملے گی اور تعریف بھی۔ ویدوں کی مذمت بھی کی گئی ہے اور ان کو الہامی اور آسمانی کتب بھی قرار دیا گیا ہے۔ اپنے آپ کو آنحضرتﷺ کا غلام بھی کہاگیا ہے اور حضورﷺ کا ہم مرتبہ بلکہ حضورﷺ سے افضل وبرتر ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ کاش مرزاقادیانی نے احادیث رسول اﷲﷺ کو ’’مداری کا پٹارہ‘‘ کہنے سے پہلے اپنے پٹارہ کی طرف جھانک کر دیکھ لیا ہوتا۔
۳؎ دیکھا آپ نے؟ آیات قرآنیہ کا کس قدر بے محل استعمال کیا جارہا ہے۔ بیت المقدس کی مسجد کو ازروئے قرآن قادیان میں بتایا جارہا ہے۔ پھر نہیں معلوم وہ قرآن کون سا ہے۔ ’’بے شک وشبہ‘‘ قادیان کا ذکر ہے۔ اسی ایک مثال سے مرزاقادیانی کے ایمان بالقرآن کی حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے۔
۴؎ پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ مرزاقادیانی احادیث کو (معاذ اﷲ) مداری کا پٹارہ کہا کرتے تھے اور عبارت منقولہ بالا میں احادیث کو آڑ بنا کر ان سے منارہ کی ضرورت ثابت فرمارہے ہیں۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘
۵؎ جس طرح گداگر بھیک حاصل کرنے کے بعد احسان مندی اور شکرگزاری کے طور پر بھیک دینے والے سے پوچھتا ہے۔ بابو جی! آپ کا نام کیا ہے۔ آپ کہاں رہتے ہیں؟ ۶؎ فرشتہ نے پہلے تو کہا کہ میرا نام کچھ نہیں۔ پھر اپنا نام ٹیچی ٹیچی بتایا۔ گویا اس نے پہلے جھوٹ بولا یا بعد میں۔ بہرحال اس کے جھوٹا ہونے میں شبہ نہیں۔ اب یہ نتیجہ نکالنا ناظرین کا کام ہے کہ جس متنبی کا فرشتہ کاذب اور جھوٹا ہو وہ خود کیا اور کیسا ہوگا۔ ع
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
۷؎ آخر لذت کیوں نہ ہوتی انگریز صرف ملہم ہی نہ تھا مربی اور سرپرست بھی تو تھا۔
۸؎ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’اور یہ بالکل غیرمعقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی