زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
اب آپ ہی فرمائیے کہ مرزاقادیانی کی زبان تو پنجابی تھی اور ’’الہامات‘‘ انگریزی وغیرہ زبانوں میں ہوئے۔ کیا یہ غیرمعقول اور بیہودہ امر نہیں؟
۹؎ یہ الفاظ خود مرزاقادیانی نے اپنے اور اپنی جماعت کے لئے استعمال کئے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’غرض یہ (مرزائی) ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ ہے اور مورد مراحم گورنمنٹ ہے۔ سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار ثابت کر چکی ہے۔ اس ’’خود کاشتہ پودے‘‘ کی نسبت نہایت احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ کر کے مجھے اور میری جماعت کو خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱)
۱۰؎ اس اصولی اختلاف کی وضاحت نہج المصلے فتاویٰ احمدیہ ص۲۷۴ میں یوں کی گئی ہے: ’’یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ ہمارے اور غیراحمدیوں (مسلمانوں) کے درمیان کوئی فروعی اختلاف ہے… کسی مامور من اﷲ کا انکار کفر ہو جاتا ہے۔ ہمارے مخالف مرزاقادیانی کی ماموریت کے منکر ہیں۔ بتاؤ یہ اختلاف فروعی کیونکر ہوا؟‘‘
۱۱؎ غور فرمائیے مسلمانوں کو صاف لفظوں میں غیر قرار دیا جارہا ہے۔
۱۲؎ ابتداء میں تو مرزاقادیانی مدت تک مسلمانوں سے خوب خوب چندے بٹورتے رہے۔ بلکہ مسلمانوں ہی کے چندہ سے جھوٹی نبوت کا پھندا تیار کیاگیا۔ البتہ یہ درست ہے کہ مسلمانوں کے فائدہ کے لئے مرزاقادیانی نے کبھی پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی۔
۱۳؎ اے جناب! اسی انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ مسلمانوں سے کلی طور پر علیحدہ ہو جائیے اور مسلمانوں کے مطالبہ کی حمایت کیجئے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، رشتہ ناتہ ایمان اسلام غرض ہر چیز میں مسلمانوں سے علیحدہ رہنا اور ملازمتوں کے لئے مسلمانوں میں گھسے رہنا آپ ہی بتائیے آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟
۱۴؎ اس شعر میں علاوہ اس کے کہ حضورﷺ پر اپنی افضلیت کا دعویٰ کیاگیا ہے۔ حضور کے معجزہ شق القمر کو گہن کہہ کر اس معجزہ کا انکار بھی موجود ہے۔