عاطفت میں پروان چڑھا بلکہ برگ وبار لایا۔
مسلمانوں کے تمام فرقوں کا اعلان تھا کہ وہ لوگ جو مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔ ہم میں سے نہیں ہیں۔ یہ ایک بالکل جداگانہ فرقہ ہے۔ امت نبوت سے بنتی ہے۔ جب مرزاغلام احمد نبی ٹھہرے تو ان کے ماننے والے محمد رسول اﷲﷺ کی امت میں کیسے شمار کئے جاسکتے ہیں۔ مگر انگریز کی پالیسی یہ تھی کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھا جائے۔ چنانچہ انگریز نے اسی اسکیم کے ماتحت چودھری ظفر اﷲ خاں کو حکومت ہند کی کابینہ میں شامل کر لیااور اس نے اس کے لئے فضا پیدا کر دی کہ لوگ ایسا سمجھنے لگیں کہ چودھری صاحب کو ایک مسلمان وزیر کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کیاگیا ہے۔ انگریز امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کے طریقوں میں مہارت رکھتا تھا اور اپنے اس فرض سے آج بھی غافل نہیں ہے۔
انگریز شخصیتوں کے گرانے اور چڑھانے کے فن میں بھی ید طولیٰ رکھتا تھا۔ اس نے لوگوں کے ذہن وفکر کو مرعوب کر دیا کہ چودھری ظفر اﷲ خان ’’قانون‘‘ اور ’’دستور‘‘ کے معاملات میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ چنانچہ اسی مرعوبیت کا نتیجہ تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں کے تصفیہ کے لئے جو باؤنڈری کمیشن مقرر ہوا۔ اس میں سرظفر اﷲ خاں (بالقابہ) پاکستان کی نمائندگی اور وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ مسٹر ریڈ کلف کے سامنے جب یہ مسئلہ پیش تھا تو پاکستان کے شہید وزیراعظم جناب لیاقت علی خان مرحوم سے ان کے ایک رفیق کار نے کہا تھا کہ ضلع گورداسپور جس میں ’’قادیان‘‘ واقع ہے۔ پاکستان میں نہیں رہ سکتا۔ یہ بظاہر ایک نہایت ہی بعید از قیاس پیش گوئی تھی۔ مگر اس کو کیا کیجئے کہ یہ پیش گوئی ایک حقیقت بن کر رہی۔ ضلع گورداسپور کی بعض تحصیلوں میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہونے کے باوجود اس ضلع کو پاکستان سے علیحدہ ہونا پڑا… اور ہو جانا نہیں پڑا۔ ایسا کرایا گیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے تھے اور چلتے چلاتے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا مقصود تھا اور پاکستان کی طرف سے وکالت خود انگریزوںکے نیاز مند چودھری ظفر اﷲ خاں فرمارہے تھے۔ لہٰذا وہی نتیجہ ظہور میں آیا۔ جس کی اس قسم کی نمائندگی سے امید ہوسکتی تھی۔
’’ریڈ کلف اوارڈ‘‘ سے لے کر اب تک جتنے معاملات میں چوہدری ظفر اﷲ خاں صاحب نے نمائندگی کی ہے ان میں سے کوئی معاملہ بھی سلجھتا تو کیا اور الجھتا اور بگڑتا ہی چلا جارہا ہے۔ فلسطین کے مسئلہ میں ان کی تقریروں کی کیا دھوم تھی۔ کیا پروپیگنڈا تھا کہ چوہدری صاحب نے اتنی اتنی دیر تک تقریریں کیں کہ مجلس اقوام کے گذشتہ ریکارڈ کو توڑ دیا۔ مگر فلسطین تقسیم ہوکر رہا۔