تجدیدواحیاء کے لئے حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل، حضرت امام غزالی، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت امام ابن تیمیہ، حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ جیسے صلحاء امت پیدا ہوئے۔ جنہوں نے دین کو زندہ کیا اور جن کے تجدیدی کاموں کی بدولت اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور گمراہیوں اور بدعتوں کا زورٹوٹ گیا۔ ان میں سے کسی بزرگ نے کسی قسم کی ظلی یا بروزی نبوت کادعویٰ نہیں۔ کیا اس لئے کہ یہ نفوس قدسیہ دین میں فتنہ پیدا کرنے اور امت کو متفرق کرنے کیلئے نہیں۔ بلکہ دین کی خدمت کے لئے آئے تھے۔ ان کا فریضہ انتشار نہیں اجتماع تھا۔ ان کی ڈیوٹی ہی یہ تھی کہ ملت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو مجتمع کر دیں۔ رسول اللہﷺ کے نقش قدم کو ان بزرگوں نے چراغ ہدایت جانا اور کتاب اللہ کے بعد سنت نبوی ہی کو معیار حق و صداقت سمجھا۔
ایک طرف مجد دین اورصلحا امت کی یہ روش اور دوسری طرف انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں ’’مرزا غلام احمد‘‘ نام کا ایک شخص پنجاب میں پیدا ہوتاہے۔ جو اپنی ’’نبوت‘‘ کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتا ہے اور اپنے متبعین اور ماننے والوں کے سوا دوسرے مسلمان کو کافر اور خارج دین کہتا ہے۔ کچھ لوگ دین اسلام سے ارتداد اختیار کر کے اس ’’مدعی نبوت‘‘ کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور محمد رسول اللہ کی امت کے توڑ پر ایک دوسری (قادیانی) ’’امت‘‘ ظہور میں آ جاتی ہے۔ یہ انگریزی حکومت کی مہربانی کا دورہ ہے۔ اس زمانہ کے مجدد اور مامور من اللہ مصلح کی سب سے بڑی صفت یہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ انگریزی حکومت کی مخالفت میں اپنی تمام قوتیں صرف کر دیتاہے۔ مگر اس کے برخلاف مرزا غلام احمد کو ہم انگریزی حکومت کا مداح خواں پاتے ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کی شان میں قصیدہ خوانی کی جاتی ہے اور انگریز کی وفاداری اور نیازمندی کی تلقین فرمائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے تمام فرقے متفقہ طور پر اس ’’مدعی نبوت‘‘ کے دعویٰ کی تردید کرتے ہیں۔ محمد رسول اﷲﷺ کے امتیوں میں ایک عام برہمی پائی جاتی ہے۔ مگر انگریز کی پشت پناہی، طرفداری اور سفلہ پروری اس برہمی کے لئے سپر بن جاتی ہے۔ ایسا نیاز مند نبی اور اتنی وفادار امت ہر حکومت کو کہاں میسر آتی ہے۔
عیسائیت کی خوشی کے مارے باچھیں کھلی جارہی ہیں کہ محمد عربی (فداہ ابی وامی) کی نبوت کی مخالفت اور آپ کی امت کی دشمنی میں صلیبی جنگیں جو کام انجام نہ دے سکی تھیں وہ کام ’’قادیان‘‘ کے نبی(؟) نے انجام دے دیا۔ یہاں تک کہ قادیانی امت کا یہ پودا انگریز کے سایہ