عبارت کو غور سے پڑھیں۔
’’غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا جو ہم ان (مسلمانوں) کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں؟ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک دینی دوسرے دنیاوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اوردنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ وناتہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔‘‘ (کلمتہ الفصل مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ص۱۵۹،۱۶۹، نمبر۴ ج۱۴)
مسلمانوں سے قطع تعلق کی بنیادی علت
مرزائی اخبار (اخبار الفضل ۲۷؍مئی ۱۹۲۰ئ) میں مسلمانوں سے مرزائیوں کے قطع تعلق کی بنیادی علت یوں بیان کی گئی ہے: ’’جب کوئی مصلح آیا تو اس کے ماننے والوں کو نہ ماننے والوں سے علیحدہ ہونا پڑا۔ مگر تمام انبیاء ماسبق کا یہ فعل قابل ملامت نہیں اور ہرگز نہیں تو مرزاغلام احمد قادیانی کو الزام دینے والے انصاف۱۳؎ کریں کہ اس مقدس ذات (مرزاقادیانی آنجہانی) پر الزام کس لئے؟‘‘
مرزاقادیانی کی انجیلی تمثیل
مرزاغلام احمد قادیانی آنجہانی نے مسلمانوں سے علیحدگی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے ایک تمثیل لکھی ہے۔ ذرا اسے بھی سن لیجئے۔
’’یہ جو ہم نے دوسرے مدعیان اسلام سے قطع تعلق کیا ہے۔ اوّل تو یہ خداتعالیٰ کے حکم سے تھا نہ اپنی طرف سے اور دوسرے وہ لوگ (مسلمان) ریاپرستی اور طرح طرح کی خرابیوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور ان لوگوں کو ایسی حالت کے ساتھ اپنی جماعت کے ساتھ ملانا یا ان سے تعلق رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ عمدہ اور تازہ دودھ میں بگڑا ہوا دودھ ڈال دیں۔ جو سڑ گیا ہے اور اس میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘‘ (تشحیذ الاذہان ج۶ نمبر۸)
اس رسالہ میں شروع سے یہاں تک جس قدر مواد مرزائی لٹریچر سے نقل کیاگیا ہے اس پر نظر غائر ڈالنے کے بعد آپ اس سے حسب ذیل نتائج اخذ کر سکتے ہیں:
۱… مسلمانوں اور مرزائیوں کا اختلاف تمام بنیادی اور اصولی عقائد میں ہے۔ یہ اختلاف فروعی قطعاً نہیں۔
۲… مرزائی مسلمانوں سے صرف عقائد مذہبی میں الگ نہیں رہنا چاہتے۔ بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی الگ رہنا ان کی مستقل پالیسی ہے۔