قدر ہیں اور ان کے دل میں حکومت پاکستان کی وقعت کتنی ہے۔ وہ خلیفہ بشیرالدین کے حکم کے مقابلے میں حکومت پاکستان کے حکم کو پس پشت ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ اصل عبارت ملاحظہ ہو: ’’آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے سرظفر اﷲ خان کو ایک خط لکھا گیا کہ پاکستان کا ایک مقتدر افسر امریکہ آرہا ہے۔ آپ کو اس کے امریکہ پہنچنے تک امریکہ میں ٹھیرنا چاہیے۔ لیکن سرظفر اﷲ نے جواب دیا کہ وہ امیرالمؤمنین یعنی مرزابشیرالدین محمود کی اجازت کے بغیر امریکہ مزید قیام کرنے سے معذور ہیں۔ اگر حکومت (پاکستان) چاہتی ہے کہ میں کچھ عرصہ امریکہ میں ٹھہروں تو اسے (حکومت پاکستان کو) مرزابشیرالدین محمود سے اس کی اجازت لینی چاہئے۔‘‘ (زمیندار مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۵۲ء ص۱)
یعنی حکومت پاکستان اگر خلیفہ بشیرالدین سے اجازت مانگے اور خلیفہ قادیانی امریکہ میں سرظفر اﷲ کو مزید ٹھہرنے کا حکم دے تب تو میں ٹھہرسکوں گا۔ ورنہ میں حکومت پاکستان کی التجاء پر مزید قیام نہیں کر سکتا۔
اندازہ لگائیے حکومت پاکستان کا ایک ملازم پاکستان کو کیسا کورا اور صاف جواب دے رہا ہے۔
(۲۲)اگر تم مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے تو تمہارے اسلام کا درخت خشک ہے (مفہوم تقریر سرظفر اﷲ)
۲۸؍مئی ۱۹۵۲ء کو جہانگیر پارک کراچی میں مرزائیوں کی دوروزہ کانفرنس میں سرظفر اﷲ نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔ (واضح رہے یہی وہ کانفرنس ہے جس کے دوسرے روز کے اجلاس پر وزیراعظم پاکستان ودیگر ایک مقتدر وزیر کی طرف سے سرظفر اﷲ خاں کو تقریر کرنے سے روکا گیا۔ مگر وہ باز نہ آئے تھے) ’’اگر نعوذ باﷲ! آپ (مرزاغلام احمد قادیانی ) کے وجود کو درمیان سے نکال دیا جاوے تو اسلام کا زندہ مذہب ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح ایک خشک درخت شمار کیا جائے گا اور اسلام کی برتری دیگر مذاہب سے ثابت نہیں ہوسکتی۔‘‘
(منقول از الفضل قادیان مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۵۲ء ص۵ کالم۲)
اندازہ لگائیے! سرظفر اﷲ کے نزدیک اگر مسلمان غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے تو ان کا اسلام زندہ مذہب نہیں بلکہ مردہ مذہب ہے۔ گویا پاکستان کے تمام مسلمانوں کا مذہب تو مردہ ہے اور ان انگریزوں کے تابعداروں (مرزائیوں) کا مذہب زندہ ہے۔