(۱۸)ماسٹر غلام محمد خان
پرائمری سکول بستی مندرانی ڈاکخانہ تونسہ
(۱۹)ماسٹر اﷲ بخش خاں
غازی تونسہ شریف
(۲۰)منشی غلام محمد
مدرس براستہ کنجاہ
فہرست بہت طویل ہے۔ یہ چند اسماء مرزائی صاحبان کی تبلیغی ڈائری سے بطور نمونہ نقل کئے گئے ہیں۔ کلرک، ٹیچر، افسر اعلیٰ، پٹواری، نمبردار، پروفیسر ہر قسم کے عہدیدار مرزائیت کے داعی مبلغ اور ان کی انجمنوں کے صدر، ناظم بنے ہوئے ہیں۔ جس دفتر میں قدم رکھو مرزائی مبلغین نے اپنا جال بچھا رکھا ہے اور کیوں نہ ہو جب انہیں سرکار مرزائیت سے حکم یہی ملتا ہے کہ: ’’بیشک آپ لوگ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں۔ لیکن وہ نوکری اس طرح کیوں نہ کرائی جائے۔ جس سے جماعت فائدہ اٹھا سکے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
’’اور جب تک ان سارے (۸) محکموں میں ہمارے آدمی موجود نہ ہوں ان سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
سوالات
۱… کیا اس طرح کی مرزائیوں کی ملازمتیں سرکاری اور محکمہ جات ڈسپلن کے خلاف ہیں یا نہیں؟
۲… کیا جو جماعت ملازمت کے سلسلہ کو اس طرح بے باکی اور بے خوفی سے اپنی جماعت کے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہے وہ مسلم لیگ کے اندر داخل ہوکر اس کے انتشار کا باعث نہ ہوگی اور کیا وہ مسلم لیگ کو ملک اور قوم کی خدمت میں مشغول کرنے کے بجائے اپنے مفاد اور جماعتی ترقی کے لئے آلہ کار نہ بنائے گی؟
۳… کیا ان حالات میں مناسب نہیں کہ مرزائیوں کا مسلم لیگ اور سرکاری ملازمتوں سے فوراً اخراج عمل میں لایا جائے تاکہ محض کارکنوں کی مدد سے ملک ترقی کی طرف قدم اٹھائے؟
یہ مطالبے ایسے ہیں کہ ہر پاکستانی کو ان کی طرف توجہ دینی لازم ہے۔
اور سنئے جہاں لالچ دینے اور نرمی کرنے سے کام نہ چلے وہاں رعب اور تشدد کے ذریعہ سے ایسے حالات پیدا کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے کہ ایک مسلمان مجبور ہوکر مرزائی بن جائے۔