اس امر کی شہادت کے لئے مندرجہ ذیل اقتباس کافی ہے۔ ’’اگر ہم محنت کریں اور تنظیم کے ساتھ محنت سے کام کریں تو ۱۹۵۲ء میں ہم ایک عظیم الشان انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ ہر خادم کو اس عزم سے اس سال تبلیغ کرنی چاہئے کہ اس سال احمدیت کی ترقی نمایاں طور پر دشمن (مسلمان) بھی محسوس کرنے لگے۔ اگر آپ اپنے کاموں پر فریضہ تبلیغ مقدم کریں گے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کے ذریعہ بھولے ہوئے مسلمان ہدایت نہ پاجائیں۔ اپنے ارادوں کو بلند کیجئے۔ ہمتیں مضبوط کیجئے کہ خدا کے فرشتے آپ کے کاموں میں آپ کی مدد کے لئے بیتاب کھڑے ہیں اور صرف دیر آپ ہی کی طرف سے ہورہی ہے۔ ۱۹۵۲ء کو گذرنے نہ دیجئے۔ جب تک احمدیت کا رعب دشمن اس رنگ میں محسوس نہ کرے کہ اب احمدیت مٹائی نہیں جاسکتی اور وہ مجبور ہوکر احمدیت کی آغوش میں آگرے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
ہمارے معزز رہنمایان قوم! مدیران جرائد! یہ پس منظر ہے جس کی بناء پر مجلس احرار اور مسلم لیگ کا ہر درد مند اور حساس مسلمان چیخ اٹھا ہے۔ یہ صرف مجلس احرار کی آواز نہیں ہے بلکہ پاکستان کے ۷؍کروڑ مسلمانوں کی آواز ہے۔ یہ آواز مسلم لیگ کے اندرون قلب سے نکل رہی ہے۔ اس کا صرف ایک حل ہے۔ وہی جو علامہ اقبال مرحوم نے پاکستان بننے سے پہلے اپنی دوررس نگاہوں سے بھانپ کر پیش کر دیا تھا۔ یعنی:
۱… جب مرزائیوں کا نبی الگ۔
۲… جب مرزائیوں کا صحابی الگ۔
۳… جب مرزائیوں کی امہات المؤمنین الگ۔
۴… جب مرزائیوں کا مسیح الگ۔
۵… جب مرزائیوں کا منارۃ المسیح الگ۔
۶… جب مرزائیوں کا مرکز (دارالخلافہ) الگ۔
۷… جب مرزائیوں کا امیر المؤمنین الگ۔
۸… جب مرزائیوں کے مہینے اور سنہ تک الگ۔