(۹)اس وقت جو ظہور مسیح موعود کا وقت ہے کسی نے بجز اس عاجز کے دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح ہوں۔ بلکہ اس مدت تیرہ سو برس میں کبھی کسی مسلمان کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں ہوا کہ میں مسیح موعود ہوں۔
(ازالہ اوہام ص۶۸۳، خزائن ج۳ ص۴۶۹)
(۹)شیخ محمد ظاہر صاحب مصنف مجمع البحار کے زمانہ میں بعض ناپاک طبع لوگوں نے محض افتراء کے طور پر مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ (حقیقت الوحی ص۳۴۰، خزائن ج۱۸ ص۳۵۳) بہاء اﷲ نے ۱۲۶۹ھ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ۱۳۰۹ھ تک زندہ رہا۔(الحکم ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۴ئ)
(۱۰)’’انہ اوی القریۃ‘‘ اب تک اس کے معنی میرے پر نہیں کھلے۔
(ایام الصلح ص۱۲۱ حاشیہ، خزائن ج۱۴ ص۳۶۱)
(۱۰)اور یہ بالکل غیرمعقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا۔ جو انسانی سمجھ سے بالا تر ہے۔
(چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
(۱۱)ہمارے نبیﷺ کا خاتم الانبیاء ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کو ہی چاہتا ہے۔
(ایام الصلح طبع دوم ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲)
(۱۱)میں اپنے ماں باپ کے لئے خاتم الولد ہوں۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۶، خزائن ج۲۱ ص۱۱۳)
تو کیا اس سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ جناب کی پیدائش سے آپ کے بہن بھائی سب مر گئے یا یہ کہ آپ کے بعد کوئی اور لڑکی لڑکا آپ کے والدین کے ہاں پیدا نہ ہوا۔ یقینا پچھلے معنی مراد ہیں۔ جیسا کہ خود آپ نے اس کے بعد اس کے معنی بھی لکھے ہیں تو پھر اسی طرح خاتم الانبیاء کے تشریف لانے سے پہلے نبیوں میں سے اگر کوئی موجود ہو تو اس کا مرنا لازم نہیں آتا۔ ہمارا تو عقیدہ یہ ہے کہ سابقہ نبیوں میں سے ایک کیا اگر سب کے سب بھی بفرض محال زندہ ہوں تو بھی ختم