(۶)’’مؤلف نقطہ الکاف سے سید یحییٰ نے دریافت کیا کہ تمہارے والد محترم کا حضرت حق (مرزا علی محمد باب) کے متعلق کیا خیال ہے۔ سید یحییٰ نے جواب دیا کہ وہ اس وقت تک اظہار توقف کر رہا ہے۔ اس کے بعد کہا میں ذات اقدس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میرا والد باوجود اس جلالت قدر کے اس ظہور باہر النور پر ایمان نہ لایا تو میں سبیل محبوب میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں گا۔‘‘
(نقط الکاف ص۱۲۲)
(۶)’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۰) ’’اگر کسی احمدی کے والدین غیراحمدی ہوں اور وہ مر جائیں تو ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲؍مارچ ۱۹۱۵ئ) ’’اگر کسی غیراحمدی کا چھوٹا بچہ بھی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔‘‘ (فتاوی احمدیہ ص۳۱۳) ’’مسیح قادیان کا ایک بیٹا فوت ہوگیا۔ جو زبانی طور پر ان کی تصدیق کرتا تھا۔ لیکن مسیح موعود نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ص۳۸۱)
(۷)علماء سے مرزاعلی محمد باب نے کہا کہ: ’’قرآن کی ہر آیت میرے دعوؤں کی تصدیق کرتی ہے۔‘‘ (نقط الکاف ص۱۳۴)
(۷)مسیح قادیان نے لکھا: ’’میں زور سے دعویٰ کرتا ہوں کہ قرآن شریف میری سچائی کا گواہ ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۴۲، خزائن ج۲۰ ص۴۴)
(۸)مرزاعلی محمد باب نے اپنی کتاب بیان میں لکھا۔ ’’تم لوگ یہود کی تقلید نہ کرو۔ جنہوں نے مسیح علیہ السلام کو دار پر چڑھایا اور نصاریٰ کی بھی پیروی نہ کرو۔ جنہوں نے محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انکار کیا اور اسلام کی بھی پیروی نہ کرو جو ہزار سال سے مہدی موعود کے انتظار میں سراپا شوق بنے بیٹھے ہیں۔ لیکن جب ظاہر ہوا تو اس سے انکار کر دیا۔‘‘ (دیباچہ نقط الکاف)
(۸)مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’تیرھویں صدی میں وہ لوگ جابجا یہ وعظ کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں امام مہدی یا مسیح موعود آئے گا اور کم سے کم یہ کہ ایک بڑا مجدد پیدا ہوگا۔ لیکن جب چودھویں صدی کے سر پر وہ مجدد پیدا ہوا اور خداتعالیٰ کے الہام نے اس کا نام مسیح موعود رکھا تو اس کی سخت تکذیب کی اور اگر خداتعالیٰ کے فضل سے گورنمنٹ برطانیہ کی اس ملک ہند میں سلطنت نہ ہوتی تو مدت سے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے معدوم کر دیتے۔‘‘
(کتاب ایام الصلح ص۲۶، خزائن ج۱۴ ص۲۵۵)