(۹)’’حضرت قائم علیہ السلام (مرزاعلی محمد باب) کا ظہور بھی جناب محمد رسول اﷲ کی رجعت ہے۔‘‘ (نقط الکاف ص۲۷۳)
(۹)مرزاقادیانی نے لکھا۔ ’’میری طرف سے کوئی نیا دعویٰ نبوت ورسالت کا نہیں۔ بلکہ میں نے محمدی نبوت کی چادر کو ہی ظلی طور پر اپنے اوپر لیا ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱)
(۱۰)’’عارف باﷲ اور عبد منصب کے لئے تو سارا قرآن حضرت قائم علیہ السلام (مرزاعلی محمد باب) کی عظمت شان کی باطنی تفسیر ہے۔‘‘ (نقط الکاف ص۲۷۳)
(۱۰)مسیح قادیان نے لکھا۔ ’’میں زور سے دعویٰ کرتا ہوں کہ قرآن شریف میری سچائی کا گواہ ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۴۲، خزائن ج۲۰ ص۴۴)
(۱۱)’’اہل ظاہر کی ظاہری الفاظ پر نظر ہوتی ہے۔ اس لئے اس کے مصداق کو نہیں پاتے۔ حالانکہ وہاں اس کا باطن مراد ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باطن تک پہنچنا ہر بے سروپا کا کام نہیں۔ بلکہ یہ ایک جلیل القدر منصب ہے۔ جس کا مقام فرشتہ یا نبی یا مؤمن ممتحن سے قرین ہے اور آج کل مؤمن ممتحن ہی کہاں ملتا ہے اور یہ کس کی مجال ہے کہ اتنا بڑا دعویٰ کرے۔ پس ظہور مہدی علیہ السلام کی جو علامتیں حدیثوں میں مذکور ہیں۔ ان سے ان کا باطن مراد ہے اور چونکہ اکثر اہل آخرالزمان ظاہر بین واقع ہوتے ہیں۔ اس لئے حدیثوں کا مطلب نہیں سمجھتے۔‘‘
(نقط الکاف ص۱۸۲،۱۸۳)
(۱۱)مسیح قادیان نے لکھا۔ ’’لیکن مشکل تو یہ ہے کہ روحانی کوچہ میں ان (علمائ) کو دخل ہی نہیں۔ یہودیوں کے علماء کی طرح ہر ایک بات کو جسمانی قالب میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا گروہ (مرزائیوں) کا بھی ہے۔ جن کو خداتعالیٰ نے یہ بصیرت اور فراست عطاء کی ہے اور وہ آسمانی باتوں کو آسمانی قانون قدرت کے موافق سمجھنا چاہتے ہیں اور استعارات اور مجازات کے قائل ہیں۔ لیکن افسوس کہ وہ بہت تھوڑے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۴، خزائن ج۳ ص۱۴۵) ’’ہر ایک استعارہ کو حقیقت پر عمل کر کے ہر ایک مجاز کو واقعیت کا پیرایہ پہنا کر ان حدیثوں کو ایسے دشوار گزار راہ کی طرح بنایا گیا۔ جس پر کسی محقق معقول پسند کا قدم نہ ٹھہرسکے۔‘‘
(ایام الصلح ص۴۹، خزائن ج۱۴ ص۲۸۱)