M
ناظرین! مرزاقادیانی کا دعویٰ عالم سے شروع ہوتا ہوا مناظر، امام، مجدد، محدث، مسیح، مہدی، کرشن، وگوپال، نبی، بروزی اور ’’انت منی بمنزلۃ ولدی‘‘ (حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹) بلکہ اس سے متعدد مراتب طے کرتا ہوا مرزاقادیانی کی وفات سے قبل ’’انت منی وانا منک‘‘ (حقیقت الوحی ص۷۴، خزائن ج۲۲ ص۷۷) پر منتہی ہوتا ہے۔ جس قدر اس سلسلہ میں معکوس عقل انسان ملتے گئے۔ مرزاقادیانی کے خیالات رذیلہ ترقی کرتے گئے۔ یہاں تک ترقی کی کہ ابن اﷲ بن بیٹھے اور قرآن شریف کے حکم کی نافرمانی یعنی ’’لم یلد ولم یولد (الاخلاص:۳)‘‘ کا حکم ہوتے ہوئے ’’انت منی بمنزلہ ولدی‘‘ اپنی کتاب میں درج کر دیا۔ جناب من! یہ ایسے خدا کی وحی تھی جس کی تعریف میں مرزاقادیانی یوں رقمطراز ہیں: ’’ہم فرض کر سکتے ہیں کہ قیوم العالمین (یعنی خدا) ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بیشمار ہاتھ، پیر اور عضو اس کثرت سے ہیں کہ تعداد سے خارج اور لاانتہاء عرض طول رکھتا ہے۔ تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۷۵، خزائن ج۳ ص۹۰)
قرآن کریم میں اپنی شان میں اﷲتعالیٰ یوں فرماتے ہیں کہ: ’’میری مثل کوئی نہیں۔‘‘ بے شک بے ادب (مرزاقادیانی) اﷲ کی شان میں گستاخی کرتا ہوا شرماتا بھی نہیں۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی تمام تصانیف میں زیادہ تر مخالفین کے حق میں بدزبانی فرضی پیش گوئیاں، ذاتی تعلقات، سرکار کی مدح سرائی، اپنی وفاداری، چندہ کی طلب اور نبوت ورسالت کی تشریحات پائی جاتی ہیں۔ خاص کر اپنی نبوت کی تشریح تو اس قدر مبہم اور پیچیدہ بنا رکھی ہے کہ لاہوری اور قادیانی دونوں جماعتوں میں جو تاپیزار ہوتا رہتا ہے۔ جس سے پایا جاتا ہے کہ مرزاقادیانی خود بھی نہ سمجھ سکے کہ میں کس قسم کا نبی ہوں اور نہ ہی سمجھا سکے۔
قادیانی پارٹی کا خیال ہے۔ بلکہ میاں محمود احمد یوں رقمطراز ہیں کہ مرزاقادیانی نے ۱۹۰۱ء میں تبدیلی عقیدہ کی تھی۔ (حقیقت النبوۃ ص۱۲۱)’’یعنی حضرت صاحب کو ۱۹۰۱ء تک اپنے دعویٰ کی سمجھ ہی نہیں آئی۔‘‘ گویا کہ ۱۸۸۴ء سے ۱۹۰۱ء تک برابر ۱۷سال نبوت کے دعویٰ سے صریح الفاظ میں انکار کرتے رہے اور بجائے اس کے محدثیت کا دعویٰ کر کے مدعی نبوت کو کذاب، کافر اور ملعون کہتے رہے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے صرف دعویٰ نبوت ہی میں غلطی