نہیں کھائی۔ ممکن ہے کہ دعویٰ محدثیت میں بھی غلطی کھائی ہو جو یقینی ہے۔ پھر ایسا شخص جو ۱۷سال خداتعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتا رہا ہو اور جس پر بارش کی طرح شب وروز وحی آتی رہی ہو۔ اس نافرمان کو آپ کیا سمجھیں گے۔ کیا وہ مسلمان ہونے کا بھی مستحق ہے؟
قادیانی گروہ کے باطل عقائد اور عجیب وغریب تحریرات اور غلو کی اتنہاء جیسے ایک مداری رنگ برنگ کا دھاگہ اپنے منہ سے نکال کر عوام کو دھوکا دیتا ہے۔ ویسے ہی مختلف اقوال اپنی کتابوں میں درج کئے جو وقتاً فوقتاً تبدیل کر کے عوام کو موقعہ کے مطابق سمجھاجائے۔ جس طرح سید محمد جونپوری مرزا علی محمد باب وغیرہ نے کئے جو آئندہ کسی صفحات میں درج ہیں۔
مرزاقادیانی کا یہ خیال کہ جس بلند پایہ واخلاق کا میں ہوں۔ اس کی مثال سوائے آپ کے مقتداء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات بابرکات کے دنیا کے کسی انسان کی زندگی میں نہیں ملتی۔ واقعی انسانیت کا معیار یقینا ایک آدمی کے اخلاق وعادات کا امتحان ہے۔ جس قدر کسی کے خصائل اور اخلاق پسندیدہ اور لائق تحسین ہوں گے۔ اسی قدر وہ مرتبہ انسانیت پر بمدارج بلند تر سمجھا جائے گا۔ یہی وہ کلیہ قاعدہ ہے۔ جس کے پیش نظر ہم ایک عام اور معمولی حیثیت کے انسان اور بلند مرتبہ اولوالعزم رسول میں امتیاز کر سکتے ہیں۔ مرزاقادیانی بھی معیار فضیلت اسی کو قرار دیتے ہیں جو ذیل میں چند حوالہ جات ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
۱… ’’چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں، سفلوں اور بدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں۔ یہ نہایت قابل شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر بھی اخلاق رذیلہ میں گرفتار ہو اور درشت باتوں کا متحمل نہ ہو سکے۔ جو شخص ایسی کچی طبیعت کا ہو کہ ادنیٰ سی بات سے منہ میں جھاگ آجائے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہو جائیں۔ وہ کسی طرح امام الزمان نہیںہوسکتا۔‘‘ (ضرورۃ الامام ص۸، خزائن ج۱۳ ص۴۷۸)
۲… ’’تجربہ بھی شہادت دیتا ہے کہ بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی غیرت اس کے ان پیاروں کے لئے اخیر کوئی کام دکھا دیتی ہے۔ پس اپنی زبان کی چھری سے کوئی اور چھری بدتر نہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۱۵ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۳۸۶،۳۸۷)
۳… ’’گالی دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۱۵ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۳۸۶،۳۸۷)