ہے اور کنواں سوکھ جاتاہے۔
حدیث شریف میں ہے ما نقص المال من صدقۃ قط یعنی صدقہ سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ دس روپیہ میں سے اگر دو روپیہ دے دو تو وہ آٹھ نہ رہیں گے دس ہی رہیں گے یا اسی وقت بیس ہوجائیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ مال چوری سے اور دوسری آفتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے، یہ کیا تھوڑی بات ہے؟ اور اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو مسلمان کے لیے یہ کیا کم ہے کہ صدقہ سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اس کو صدقہ خیرات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی طلب کرنا چاہئے، دنیاوی حاکموں کے لیے لوگ کتنا خرچ کرتے ہیں ، پھر خدا کے لیے خرچ کرنا کیوں مشکل ہے۔
(وعظ العشر ملحقہ حقوق وفرائض ص:۵۸۲)
زکوٰۃ ادا کرنے سے مال کی کمی کا شبہ اور اس کا جواب
اکثر مال دار لوگ زکوٰۃ دینے میں اس وجہ سے کوتاہی کرتے ہیں کہ وہ ڈرتے ہیں کہ زکوٰۃ دینے سے روپیہ کم ہوجائے گا۔
سو اول تو اس کا تجربہ ہوچکا ہے کہ زکوۃ و صدقہ دینے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا، اس وقت اگر کسی قدر نکل جاتا ہے تو کسی موقع پر اس سے زیادہ اس میں آجاتا ہے، حدیث شریف میں بھی یہ مضمون موجود ہے۔
دوسرے اگر بالفرض کم ہی ہوگیا تو کیا ہے؟ آخر اپنی نفسانی لذتوں میں ہزاروں روپیہ خرچ کرڈالتے ہیں وہ بھی تو کم ہوتا ہے، سرکاری ٹیکس اور محصول میں بھی تو بہت کچھ دینا پڑتا ہے، اور اگر نہ دو تو باغی اور مجرم قرار دئیے جاؤ، آخر اس میں بھی تو گھٹتا ہے پھر اس کو بھی خدائی ٹیکس سمجھو۔