اپنی رائے پر وثوق (اعتماد) نہیں کیا،بلکہ چند علماء سے تحریری بھی اور زبانی بھی استفتاء کیا جس کے جواب میں علماء کے مختلف جوابات آئے، مگر یہی طے کیا کہ شبہ کی حالت میں دوسروں کا دے تو دینا چاہئے، اپنا نہیں لینا چاہئے، اگر اپنا حق ہو بھی تو معاف کردینا چاہئے، اس لیے ایک عالم سے فرائض نکلواکر اس قدر رقم جدا کردی جس قدر میرے ذمہ آئی۔ ( الافاضات الیومیہ ۲؍۱۹۰)
شرعی حکم
شرعی حکم یہ ہے کہ میت کا کل ترکہ (یعنی جو مال میت نے چھوڑ اہے وہ سب) ورثاء کے درمیان مشترک ہے۔ اور مشترک مال کو دوسرے شرکاء (حصہ داروں ) کی اجازت کے بغیر خرچ کرنا جائز نہیں ، پس ترکہ میں کرتہ پائجامہ حتی کہ ٹوپی ، کمر بند رومال بلکہ سوئی تک بھی تقسیم سے پہلے سب ورثاء کی رضامندی کے بغیر کسی کو دینا جائز نہیں ۔ (اصلاح المسلمین ص:۴۸۱)
میت کے مال سے مہمان نوازی کرنا درست نہیں
مردے کے مال میں سے لوگوں کی مہمان داری، اور آنے والوں کی خاطر مدارات ،کھلانا پلانا، صدقہ خیرات وغیرہ کچھ کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح مرنے کے بعد سے دفن کرنے تک جو کچھ اناج وغیرہ فقیروں کو دیا جاتا ہے مردہ کے مال میں سے اس کا دینا بھی حرام ہے ، مردے کو ہرگز کچھ ثواب نہیں پہنچتا، بلکہ ثواب سمجھنا بہت سخت گناہ ہے، کیونکہ اب یہ سب مال تو وارثوں کا ہوگیا، دوسروں کی حق تلفی کرکے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ دوسروں کا مال چوری کرکے دے دینا، سب مال وارثوں کو بانٹ دینا چاہئے، ان کو اختیار ہے اپنے اپنے حصہ میں شریعت کے موافق کچھ کریں یا نہ کریں ۔ بلکہ وارثوں سے اس