معاف نہیں ہوا، البتہ سب وارث یہ معافی منظور کریں اور وہ سب بالغ ہوں تب معاف ہوگا، اور اگر کسی غیر وارث کو معاف کیا تو تہائی مال میں سے جتنا زیادہ ہوگامعاف نہ ہوگا۔
اکثر دستور ہے کہ بیوی مرتے وقت اپنا مہر معاف کردیتی ہے یہ معاف کرنا صحیح نہیں ۔ (بہشتی زیور ۵؍۶۰)
میراث کے مسئلہ میں عورتوں سے متعلق ایک بڑی کوتاہی
ایک اہم مسئلہ جس کے متعلق بعض اہل علم بھی غلطی میں مبتلا ہیں وہ یہ کہ بعض دفعہ کوئی خاص وارث اپنا حق نہیں لیتا چاہتامثلا، بہن عام طور سے اپنا حق نہیں لیتی، اور اس کی شروعات ظلم سے ہوئی ہے، مگر اب عام رسم ہوگئی کہ میراث میں سے عورت کے لیے حصہ لینا عیب شمار کیا جاتا ہے، اس واسطے وہ حصہ نہیں لیتی، بلکہ یہ کہہ دیتی ہے کہ میں تو یہ چاہتی ہوں کہ میرا حصہ بھائی لے لے، تو اس کے اس کہنے سے بھائی اس بہن کے حصہ کا مالک نہیں ہوتا، کیونکہ اول تو جب اس رسم و رواج کی بنیاد ظلم پر ہے تو بہن نے خوش دلی سے اپنا حصہ نہیں چھوڑا، اور بغیر خوش دلی کے کسی کا مال دوسرے کیے لیے حلال نہیں ۔
دوسرے فرض کیجئے اگر واقعی بہن خوش دلی سے بھی کہہ دے تب بھی اس وجہ سے کہ اضطراری طور پر مالک ہوجانے سے وہ حصہ اس کی ملک ہوگیا، (یعنی بہن خود بخود میراث کے حصہ کی مالک ہوگئی) اور مالک ہوجانے کے بعد کوئی عقد (معاملہ) ملکیت منتقل ہونے کا پایا نہیں گیا، اس لیے وہ حصہ اس کی ملک سے خارج نہیں ہوا، بلکہ وہ میراث کے مال میں اپنے حصہ کی بدستور مالک ہے۔
اب اگر اس نے اپنی زندگی میں نہ لیا تو مرنے کے بعد بہن کی اولاد اس کا حصہ پائے گی، وہ اگر ماموں سے لینا چاہیں تو شرعاً مطالبہ کرسکتے ہیں ۔ اس