آج کل بہنوں کا میراث میں کچھ حق نہیں سمجھا جاتا اور اگر کسی نے بہت کو حقدار سمجھا بھی تو اس سے معافی کرانے کی فکر کی جاتی ہے، اور معافی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ جانتی ہے کہ مجھے کچھ ملتا تو ہے نہیں کیونکہ ظالموں نے قانون میں بہن کو میراث سے محروم کررکھا ہے تو بھائی صاحب سے بُر ی کیوں بنوں ، تو وہ مجبور ہوکر اپنا حق معاف کردیتی ہے، اور جہاں قانوناً اسے حق مل سکتا ہے وہاں بھائی صاحب سے حصہ لینے میں بدنامی سمجھتی ہے، ایسے لوگ دعویٰ کرتے ہیں شریعت کی اتباع کا کہ ہم نے تو بہن سے کہا تھا اس نے خود ہی اپنا حق چھوڑ دیا، خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ معانی معتبر نہیں البتہ اگر بہن کو اس کا حق سپرد کردیا جائے پھر وہ قبضہ کے بعد بلکہ چند روز اس سے نفع اٹھانے کے بعد خوش دلی سے ہبہ کردے تو جائز ہوسکتا ہے ورنہ دلی مرضی کے بغیر یہ رسمی اجازت ہرگز معتبر نہیں ۔ (شفاء العی ملحقہ تدبیر وتوکل ص:۲۱۱)
مرتے وقت مہر یا کسی کا قرض معاف کرنا
ایک کوتاہی جو بہت عام ہے کہ جب کوئی عورت مرنے لگتی ہے کہتے ہیں کہ شوہر(کے مہر) کو معاف کردو، اور وہ معاف کردیتی ہے، اورشوہر اس کے معافی کو کافی سمجھ کر اپنے کو مہر کے قرض سے بری سمجھتا ہے اور اگر کوئی وارث مانگے بھی تو اس کو دیتا نہیں ، نہ اس کا دینا ضروری سمجھتا ہے ۔
خوب سمجھ لیا جائے کہ اس وقت کی معافی وصیت ہے، اور وارث کے حق میں وصیت نافذ نہیں ہوتی، جب تک کہ سب بالغ و رثاء اس کو منظور نہ کریں ۔
(اصلاح انقلاب ۱؍۲۲۸)
ایسی بیماری کی حالت میں جس میں کہ مرجائے اپنا قرض معاف کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے، اگر کسی وارث پر قرض آتا تھا اور اس کو معاف کیا تو