میراث کے مسئلہ میں عام لاپرواہی و بدنیتی
فرائض (یعنی میراث کے مسئلے) میں ہم دیکھتے ہیں (کہ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ) اگر اپنے آپ کو ملتا ہوا حصہ دیکھتے ہیں تب تو فرائض (میراث کا حصہ) نکلواتے ہیں ورنہ نہیں ، اور بعض لوگ تو شروع ہی میں پوچھ لیتے ہیں کہ ہمارا بھی کچھ حصہ ہے یا نہیں اگر کچھ حصہ ہوا تو مسئلہ نکلواتے ہیں ، اور اگر نہ ہوا تو چل دیتے ہیں ، اور بعض لوگ اس امید پر مسئلہ نکلواتے ہیں کہ کچھ ملے گا مگر جب ان کو مسئلہ نکال کر سنایا جاتا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا اس میں کچھ نہیں ہے تو بہت بد دل ہوتے ہیں ۔
ایک صاحب میرے پاس میراث کا مسئلہ لائے اور پوچھا کہ میرا کتنا حصہ ہے؟ میں نے بتلادیا کہ اتنا ہے، ان کو وہ بہت کم معلوم ہوا، کہنے لگے کہ میرا حصہ کیوں گھٹ گیا؟ میں نے کہا کہ فلاں وارث کی وجہ سے کم ہوگیا اور اگر وہ نہ ہوتا تو تم کو زیادہ ملتا، تو کہنے لگے جناب پھر اس کو نہ لکھئے۔
اور اکثرمیراث کا مسئلہ وہی پوچھتا ہے جس کے قبضہ میں کچھ نہ ہو اور قبضہ چاہتا ہو اور جو قابض ہوتا ہے وہ کبھی فرائض نہیں نکلواتا کیونکہ جانتا ہے کہ تقسیم کرنی پڑے گی، اورمیر ے قبضہ سے مال ودولت نکل جائے گا، غرض لینے کے واسطے میراث کا حصہ نکلواتے ہیں دینے کے لیے کوئی نہیں نکلواتا ، الا ماشاء اﷲ۔
پوری عمر بھر میں ایک شخص آئے جو تمام ریاست پر قابض تھے انہوں نے حصے نکلوائے تھے تاکہ شرع کے موافق جائداد تقسیم کریں ۔ اور ان کے سوا جو آتا ہے ایسا ہی آتا ہے جو لینا چاہتا ہے اور دینا نہیں چاہتا۔
(ذم ہویٰ ملحقہ آداب انسانیت ص:۲۴)