انتقال کے بعد اس کی میراث جلد تقسیم کرنا چاہئے
لوگوں نے مال کے بارے میں بڑی بے احتیاطیاں کررکھی ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ بس شریعت کا تعلق صرف نماز روزہ سے ہے حالانکہ شریعت کا معاملات اور اموال سے پورا تعلق ہے ، قیامت کے روز تین پیسہ کے عوض میں سات سو مقبول نمازیں لی جائیں گی، پھر حضرت اگر ایسا ہوا تو ہمارے پاس کیا بچے گا۔
خدا کے لیے معاملات کو درست کرو میراث میں (آج کل) بڑی خرابیاں ہورہی ہیں بیوہ کو اگر سارا مال مل جاتاہے تو وہ اس کو اس طرح لٹاتی ہے اور یتیم بچوں کا بھی حصہ نہیں چھوڑتی ہے اوراگر کسی اور کا قبضہ ہوجائے تو وہ مالک بن بیٹھتا ہے، دوسرے وارثوں کو نہیں دیتا، رہیں گھر کے برتنے کی (گھر میں استعمال ہونے والی) چیزیں سو وہ مشترک ہی رہتی ہیں ان کی کبھی تقسیم ہی نہیں کی جاتی۔
یہ گڑبڑ ہورہی ہے میراث میں بس ان سے بچنے کی آسان صورت یہ ہے کہ جب کسی کا انتقال ہوجائے تو جتنا مال واسباب (سامان) ہو سب تقسیم کردو، اور بالکل دیر نہ کرو، دیرکرنے میں بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔
(التبلیغ ۱۵؍۹۳)
عمدہ نمونہ
بطور نمونہ کے چند واقعات سناتا ہوں ، میرے والد صاحب کے پاس قلمدان تھا، ان کے انتقال کے بعد میں نے لے لیا کیونکہ سارے ورثاء بالغ تھے اور میرے لینے سے سب خوش تھے مگر مجھے پھر کھٹکا ہوا کہ میرے فعل سے دوسروں کو سند ہوگی، بس میں نے قیمت کا (اندازہ) کرکے ورثاء کو (قیمت) تقسیم کی اور میں نے کہہ دیا چاہے قلمدان لے لو، چاہے پیسے لے لو، اور وجہ اس کی یہ تھی کہ مجھے مفت لیتے ہوئے غیرت آئی کہ کیوں ورثاء کی منت (احسان)