مسکینوں محتاجوں کو نہ دینا بھی اسراف میں داخل ہے
حق تعالیٰ فرماتے ہیں وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۔ اسراف نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کو پسند نہیں فرماتے۔
اس آیت میں فقراء کے حق ادا کرنے کا حکم ہے اورفقراء کا حق کھاجانے کی ممانعت ہے جس کا حاصل یہ کہ فقراء کا حق ادا کرو، اور سارا کا سارا خود ہی نہ کھاجاؤ کہ مسکینوں کا بھی حق کھالو، کیونکہ یہ اسراف ہے اور حق تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے اور یہ اسراف اس لیے ہے کہ اس میں حد شرعی سے تجاوز ہے اور اسراف کی حقیقت بھی حد سے تجاوز ہے، پس مطلب یہ ہوا کہ مسکینوں کا حق ادا کرو، اور اتنا نہ کھاؤ کہ مسکینوں کا حق بھی نہ بچے اور اسراف جیسے خرچ کرنے میں ہوتا ہے کھانے میں بھی ہوتا ہے۔
(وعظ العشر حقوق وفرائض ص:۵۹۸)
فضول خرچی کرنے والوں کا انجام
ہمارے یہاں ایک نواب صاحب تھے کسی ملک کے نواب نہیں تھے بلکہ فضول خرچی کرنے کی وجہ سے نواب مشہور تھے فضول خرچی کی یہ حالت تھی کہ نوچندی کا میلہ ہے اور ساتھیوں نے ٹھنڈا سانس لے کر کہا کہ ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم بھی جاتے، بس یہ سن کر سو سو روپئے سب کو دے دئیے، اور یہ کیفیت تھی کہ جلیبیاں منگائی ہیں ، ساتھیوں میں سے کسی نے کہہ دیا کہ تیل کی ہیں ۔ بس بیلوں کو ڈلوادیں اور جلیبیاں بیل کھا رہے ہیں اور سیکڑوں قسم کی فضولیات ان کے یہاں رہتی تھیں ۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ مفلس قلاش (خالی ہاتھ) ہوگئے۔
ایک حالت تو وہ تھی دوسری حالت فاقہ کی ہوئی اس میں یہ کیفیت تھی کہ