لیے کیا ہی خوب ہے)۔ (فروع الایمان ص:۸۱)
مال ہماری ملک نہیں اس کے خرچ کرنے کے بھی حدود مقرر ہیں
حدیث شریف میں آتا ہے کہ بندہ کو حق تعالیٰ کھڑا کرکے دریافت فرمائیں گے کہ جوانی کہاں خرچ کی اور مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مال اپنا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہے، کسی نوکر کو آپ کوئی خزانہ سپرد کردیں تو کیا وہ اس مال کامالک اور خود مختار ہوگا ؟ اسی طرح خدا تعالیٰ نے آپ کو مال دیا ہے جب تک کہ شرعی اجازت نہ ہو آپ کو دینے کا اختیار نہیں ، خدا تعالیٰ نے آپ کو مال دیا ہے تو اس کی فہرست بھی دی ہے کہ اس موقع پر خرچ کرنے کی اجازت ہے اس موقع پر نہیں ۔ یہ نہیں کہ جس کو چاہا دے دیا، اور جہاں چاہا خرچ کردیا، حد سے زیادہ (اور بے موقع) خرچ کرنے کا کچھ اختیار نہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنا خرچ شریعت کے مطابق مقرر کرلے۔
شادی بیاہ میں لوگ آنکھیں بند کرلیتے ہیں ، اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ اس موقع پر خرچ کرنا چاہئے یا نہیں ۔
خوب سمجھ لو کہ خرچ کرنے کے بھی حدود مقرر ہیں ، جیسے نماز روزہ کے حدود ہیں ، اگر کوئی بجائے چار رکعت کے چھ رکعت نماز پڑھنے لگے یا کوئی روزہ عشاء تک رکھنے لگے تو گنہگار ہوگا اسی طرح مال کو بھی حد سے زیادہ خرچ کرنے میں بھی گناہ ہوگا۔
خدا تعالیٰ نے ہر چیز کے حدود مقرر کئے ہیں ، پس ایک تو حدود کو معلوم کرنا چاہئے (کہ کون کون سے موقعوں میں مال خرچ کرنا چاہئے)۔
دوسرے جو کام کرو سوچ کر کرو، ان دونوں باتوں پر عمل کرو گے تو حقوق ضائع نہ ہوں گے۔ (احکام المال، التبلیغ ۱۵؍۳۷)