میراث جلد ہی تقسیم کرنا چاہئے
میری رائے ہے کہ ترکہ (یعنی میراث) مرتے ہی تقسیم ہوجائے بعد میں بڑے جھگڑے پھیل جاتے ہیں ۔
ترکہ میں (یعنی میت کے مال میں ) سب سے پہلے دیکھنے کی ضروری چیزیں یہ ہیں کہ مرحوم کے ذمہ قرض تو نہیں ہے؟ اگر قرض ہے تو پہلے اس کو ادا کیا جائے، اگر قرض نہیں یا ادا ہو کر کچھ مال بچ گیا تو اب یہ دیکھو کہ مرحوم کی کچھ وصیت تو نہیں ؟ اگر کوئی جائز وصیت ہے تو شرع کے مطابق تہائی مال میں وصیت کو پورا کیا جائے، جب اس سے یکسوئی ہوجائے اور ترکہ خالص وارثوں کا ہوجائے تو اب ہر وارث کو اس کے شرعی حصہ کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔
(انفاس عیسیٰ ۱؍۳۳۵-۲؍۶۳۶)
میراث تقسیم کرنے کا طریقہ
میراث تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ میراث کا مال تقسیم کرکے ہر شخص کا حصہ اس کو پہنچادیا جائے، منقول وغیر منقول (یعنی وہ سامان جو منتقل ہوسکتے ہیں جیسے سامان غلہ وغیرہ اور غیر منقول جیسے مکان، جائداد وغیرہ) سب کو اس طرح تقسیم کرلو کہ جو چیزیں ذوات الامثال (یعنی ایک جیسی ہیں )جس کا مثل پایا جاتا ہے مثلاً غلہ ان کو بعینہ بانٹ لو، اور جو چیزیں متماثل (ایک جیسی) نہ ہوں اس کی آسان صورت یہ ہے کہ اس کی قیمت لگالو، اور (قیمت کے اعتبار سے تقسیم کرلو اور) اگر اختلاف ہو تو قرعہ ڈال لو، یا نیلام کرکے (فروخت کرکے) دام تقسیم کرلو، غرض سب کی رضامندی سے جب پورا ترکہ تقسیم ہوجائے اس وقت جس کا جی چاہے اپنے اپنے حصہ میں خیرات (ایصال ثواب) کردے۔ (شفاء العی ص:۲۱۰)