خرچ کرنے اور خیرات کرنے کی اجازت بھی نہ لینا چاہئے، کیونکہ اجازت لینے سے صرف ظاہری دل سے اجازت دیتے ہیں کیونکہ اجازت نہ دینے میں بدنامی ہوگی، ایسی اجازت کا کچھ اعتبار نہیں ۔ (بہشتی زیور ۵؍۶۱)
میت کے مال سے نماز وروزہ کا فدیہ دینا
بعض لوگ تقویٰ کے جوش میں آکر مشترک ترکہ (میراث کے مال میں ) میت کے وصیت کئے بغیر نماز روزہ کا فدیہ دلواتے ہیں ، سو اس میں حکم یہ ہے کہ اگر میت وصیت کرے (کہ میری نماز کا مثلاً فدیہ دے دے دینا) تو تہائی مال میں فدیہ دینا وارثوں کے حق پر مقدم ہے (یعنی میراث تقسیم کرنے سے پہلے تہائی مال سے فدیہ دیا جائے گا) اور اگر وہ وصیت نہ کرے تواب جس کو دینا ہو خاص اپنی میراث کے حصہ میں سے یا اپنے پہلے مال سے دے۔
(اصلاح انقلاب ص:۲۴۰)
میت کے مال سے صدقہ خیرات کرنا بھی درست نہیں
ہندوستان میں عام رواج ہے کہ میت کے مرنے کے بعد جو خاندان کا بڑا اور سرپرست ہے وہ کچھ ایصال ثواب کے نام سے کچھ فضول رسموں میں اس ترکہ (یعنی میت کے مال) سے خرچ کرتا ہے، سو ایسا کرنے سے اس شخص کو اپنے حصہ میں سے تمام روپیہ بھرنا پڑے گا، البتہ بالغ وارثوں کی اجازت سے جو خرچ ہو وہ سب ان کے حصہ میں پڑے گا اور جن کی صاف اجازت نہیں یا جو نابالغ ہیں ان کا حصہ تقسیم میں پورا دینا پڑے گا۔ (صفائی معاملات ص:۲۷)
اسی طرح جو دستور ہے کہ میت کے استعمال والے کپڑے خیرات کردئیے جاتے ہیں یہ بھی وارثوں کی اجازت کے بغیر ہرگز جائز نہیں ، اور اگر