ہوئے دیکھا ہے مگر بخیلوں کو نہیں ۔
ایسے واقعات کثرت سے موجود ہیں کہ اسراف کا نتیجہ کفر ہوگیا، اور وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ اسراف کرنے والوں کو اپنی ضرورتوں میں مجبوری ہوتی ہے اور مال ہوتا نہیں ، اس لیے دین فروشی بھی کرلیتا ہے۔ اور بخیل کو یہ مجبوری نہیں ہوتی اس کے ہاتھ میں ہر وقت پیسہ موجود ہے، گو وہ خرچ نہ کرے، اس کے علاوہ ایک بات اور بھی ہے کہ بخیل آدمی زیادہ حریص نہیں ہوتا اس پر ممکن ہے کہ کوئی صاحب شبہ کریں کہ حریص (لالچی) تو ہوتا ہے اور میں بھی مانتا ہوں کہ ہوتا ہے مگر ایسا حریص نہیں ہوتا کہ اپنے دین کو بھی کردے اور اسراف کرنے والے سے اندیشہ ہے کہ کہیں دین نہ کھو بیٹھے۔ (الافاضات الیومیہ ۲؍۱۵۳)
آج کل کے فضول اخراجات
آج کل اکثر لوگ آمد و خرچ میں شریعت کے حدود کا لحاظ نہیں رکھتے، خرچ کے اندر تو کچھ باک ہی نہیں جہاں چاہتے ہیں تنعم میں فضول سامان میں ناموری کے کاموں میں بے دھڑک خرچ کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں ، اور سب سے زیادہ گندہ پیسوں کا مصرف جو اس شہر میں (بلکہ اب تو ہر جگہ) کثر ت سے ہے۔ کوکین کھانا ہے (ایک نشہ والی چیز ہے جیسے افیون بھنگ اور اسی کے قریب قریب آج کل بیڑی سگریٹ کا نشہ گٹکا، پڑیا، شیام بہار وغیرہ کے خرچے ہیں ) اس کی وجہ سے سیکڑوں گھر برباد ہوگئے، ظاہر میں تو ذرا سی چیز ہے لیکن اس کے مفاسد بہت ہیں ، یہ سب چیزیں تو شیطان کا شیرہ ہیں ۔
شیطان سے کسی نے کہا تھا کہ تو بڑا ملعون ہے گناہ کراتا ہے، اس نے کہا کہ میں کیا گناہ کراتا ہوں میں تو ایک ذرا سی بات کرتا ہوں لوگ اسی کو بڑھادیتے ہیں ، دیکھو میں تم کو تماشہ دکھلاتا ہوں ایک دکان پر پہنچے ایک انگلی شیرہ