مسئلہ: جو چیز ہو اپنی سب اولاد کو برابر دینا چاہئے، لڑکا لڑکی سب کو برابر دے اگر کبھی کسی کو کچھ زیادہ دے دیا توبھی خیر کچھ حرج نہیں لیکن جسے کم دیا اسے نقصان دینا مقصود نہ ہو نہیں تو کم دینا درست نہیں ۔
(بہشتی زیور ص:۵؍۴۶)
ضرورت کی وجہ سے بعض اولاد کو زیادہ دینا جائز ہے
سوال: (۴۹۷): زید کی اولاد میں چند لڑکے اور لڑکیاں ہیں ، ان میں سے بڑی عمر کی اولاد میں تعلیم بیاہ شادی وغیرہ میں روپیہ صرف کرچکا ہے، اور صغیر سن اولاد (یعنی چھوٹے لڑکوں ) کی نہ تعلیم ہوئی ہے نہ شادی، اب زید اپنے بڑھاپے کی وجہ سے اپنی زندگی میں ورثاء کو شرعی طور پر مال واسباب تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ چھوٹی اولاد کی تعلیم اور شادی وغیرہ کا خرچ ان کو بڑی اولاد کی طرح میراث کے حصہ کے علاوہ شرعاً دے سکتا ہے یا نہیں ؟
الجواب: چونکہ صورت مسئولہ میں بعض اولاد کو شادی و تعلیم کی غرض سے زیادہ دیتا ہے، اس لیے اس میں کچھ حرج نہیں ۔ اس کے علاوہ اور جو کچھ ترکہ ہو سب اولاد مذکرو مونث (یعنی لڑکا لڑکی) کو برابر تقسیم کردینا چاہئے، لیکن تقسیم صحیح ہونے کے لیے ہر حصہ کا جدا کرنا اوربالغوں کا قبضہ کرانا بھی ضروری ہے۔ (امداد الفتاوی ح:۴۷)
تمام وارثوں کے لیے اس طرح وصیت کرنے کی ضرورت جس سے کہ بعد میں جھگڑا نہ ہو
اگر مورث (یعنی مالک جو مرنے والا ہے وہ) اپنے ترکہ میں اس طرح وصیت کرجائے کہ فلاں وارث کو فلاں چیز دی جائے اور فلاں وارث کو فلاں