یا رشتہ دارہی نہ ہو کوئی غیر ہو اس کے لیے وصیت کرنا درست ہے۔
اگر کسی نے اپنے وارث کو وصیت کردی کہ میرے بعد اس کو فلانی چیز دے دیدینا تو اس وصیت سے پانے کا اس کو کچھ حق نہیں ۔ البتہ اگر سب بخوشی راضی ہوجائیں تو تہائی سے زیادہ ملے گا، ورنہ فقط تہائی ملے گا، اور نابالغوں کی اجازت کا کسی صورت میں اعتبار نہیں ۔ (بہشتی زیور ۵؍۵۸)
(الغرض) وارث کے لیے وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ۔ اور دوسرے ورثاء کی اجازت وہی معتبر ہے جو موصی (یعنی جس نے وصیت کی ہے اس کے) مرنے کے بعد ہو ، وصیت کے وقت کی اجازت کا اعتبار نہیں ۔ (امداد الفتاویٰ ۴؍۳۳۳)
وصیت صرف تہائی مال میں
وصیت کا اختیار صرف تہائی مال سے ہوتا ہے یعنی جتنا مال چھوڑا ہے اس کی تہائی میں سے اگر وصیت پوری ہوجائے مثلاً کفن دفن اور قرضہ ادا کرنے کے بعد تین سو روپئے بچے اور سو روپئے میں سب وصیتیں پوری ہوجائیں تب تو وصیت کو پورا کریں گے، اور تہائی مال سے زیادہ لگانا وارثوں کے ذمہ واجب نہیں ہے تہائی میں سے جتنی وصیتیں پوری ہوجائیں اس کو پورا کریں ۔ باقی چھوڑ دیں ، البتہ اگر سب وارث بخوشی رضامند ہوجائیں کہ ہم اپنا اپنا حصہ نہ لیں گے تم اس کو وصیت میں لگادو تو البتہ تہائی سے زیادہ بھی وصیت میں لگانا جائز ہے لیکن نابالغوں کی اجازت کا بالکل اعتبار نہیں ہے۔ وہ اگر اجازت بھی دے دیں تب بھی ان کا حصہ خرچ کرنا درست نہیں ۔
فائدہ: اگر چہ تہائی مال میں وصیت کرجانے کا اختیار ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ پوری تہائی کی وصیت نہ کرے، کم کی وصیت کرے، بلکہ اگر بہت زیادہ