لوں کہ ان سے معاف کراؤں ۔ دوسرے مجھے (دوسروں کو) سبق سکھانا تھا کہ(ایسے موقع پر) یوں کیا کرتے ہیں ۔
دوسرا واقعہ: میرے والد صاحبؒ کے سامان میں دو چوغے تھے جو لکھنؤ سے لائے تھے ایک میرے لیے ایک بھائی کے لییمگر دینے نہ پائے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا، اگر میں لے لیتا تو الحمدﷲ کوئی ان کا مطالبہ کرنے والا نہتھا اور نہ ان کے کسی کام کے تھے، خوشی سے سب مجھ کو دے دیتے، مگر میں نے کہا کہ ان میں بھی میراث جاری ہوگی، یہ میں نے اس وجہ سے کیا کہ اس سے اوروں کو سبق ملے گا۔
برتن وغیرہ سب کی تقسیم شریعت کے موافق کی گئی اور تھوڑی ہی دیر میں تمام ترکہ تقسیم ہوگیا، اور ذرا بھی نزاع (جھگڑا) نہیں ہوا۔
اس لیے میری رائے یہ ہے کہ ترکہ (میراث) بعد مرتے ہی تقسیم ہوجائے، بعد میں بڑے قصے پھیل جاتے ہیں ، اب تو برسوں کے بعد تقسیم ہوتی ہے اور بڑی خرابیاں (اور لڑائیاں ) ہوتی ہیں ۔ بس خدا سے ڈرنا چاہئے اور معاملات کو درست کرنا چاہئے۔ (التبلیغ وعظ احکام المال ۱۵؍۹۴)
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط و تقویٰ
ایک روز بیٹھے ہوئے اچانک خیال آیا کہ والد مرحوم نے چار شادیاں کیں تو چار دین مہر (مہر کے قرض) کے والد صاحب قرض دار ہوئے اورا س قرض کی ادائیگی یا معافی مشکوک ،جس کا کچھ پتہ نہیں ، والد صاحب نے کافی ترکہ چھوڑا تو دیون ترکہ سے متعلق ہوگئے، اور اس ترکہ سے مجھ کو بھی حصہ ملا تو اسی نسبت سے میرے ذمہ بھی دین ہوگیا گو اس زمانہ میں معافی مہر کی رسم غالب بلکہ عام تھی، اس لیے مجھ کو تردد ہوا مگر صاحب غرض ہونے کی وجہ سے