الغرض یہ سمجھ لو کہ یہ مال تمہارا نہیں ہے خدا تعالیٰ کا ہے، پس ان کا مال جب خرچ کرو، تو ان کی اجازت سے خرچ کرو، جب تک کہ ان کی اجازت نہ ہو ہرگز نہ دو، نہ کسی ساتھی کو نہ کسی اور کو، اگر فضول خرچی سے تباہی آگئی تو کیا اس وقت تمہارا کوئی ساتھ دے دے گا، جو آج حضور حضور کرتے ہیں وہی اس وقت گالیاں دیں گے اس لیے مال کو بہت حفاظت سے رکھنا چاہئے، ہاں جو واقعی خرچ کرنے کا موقع ہو وہاں خرچ بھی کرنا چاہئے۔
(ارشادات حکیم الامت ص:۴۸۷)
ہم مال کے مالک نہیں بلکہ امین ہیں
بعض لوگ آمدنی میں تو احتیاط کرتے ہیں (یعنی سود رشوت وغیرہ سے بچتے ہیں ) مگر خرچ میں اس کی رعایت نہیں کرتے، بس یوں سمجھتے ہیں کہ ہمارا مال ہے جس طرح چاہیں خرچ کریں ۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہمارا مال ہے جہاں ہم چاہیں اڑائیں مگر یہ اس کی غلطی ہے، انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ حق تعالیٰ کا ہے جس میں وہ صرف امین ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ کی اجازت ہو وہیں خرچ کرنے کا اختیار ہے، اور جہاں ممانعت ہے وہاں اس کو ہرگز خرچ کرنے کا اختیار نہیں ۔
(یہ سوچو کہ) جب تم خود ہی اپنے نہیں بلکہ خدا کے ہو تو پھر تمہارا مال کدھر سے تمہارا ہوا، تم تو محض امین ہو اور مال تمارے ہاتھ میں امانت ہے، اور امانت میں خیانت کرنا جرم ہے، لہٰذا مال میں تم کو حق تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کسی تصرف کی اجازت نہیں ۔
(الغرض) یہ مال تمہارا کہاں ہے سب خدا ہی کی ملک ہے، تم تو محض خزانچی ہو تمہارے ہاتھ میں تحویل ہے تم ایسے ہو جیسے غلام ہوتا ہے، مالک