صدقہ ہے۔ بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ قرضہ بھی ہوجاتا ہے تو وہ اس لڑکے کے ذمہ رکھا جاتاہے، اور اسی سے ادا کرایا جاتا ہے۔ یہ کس قدر صریح ظلم ہے۔
پس اول تو فضول رسمیں خود ناجائز ہیں ، اور جو مصارف مباح اور جائز بھی ہوں تب بھی اس کے حصہ سے اس کی صریح رضامندی کے بغیر جب کہ وہ بالغ بھی ہوں خرچ کرنا حرام ہے، اور اگر وہ نابالغ ہے تو صریح اجازت بھی شرعاً معتبر نہیں ۔ یا ویسے ہی عرف و لحاظ کی وجہ سے اجازت دے دی یہ سب شرعا غیرمعتبر ہے۔ (اصلاح الرسوم ص:۱۶)
بعض لوگ اپنے جی کو سمجھالیتے ہیں کہ شادی کے موقع پر پھوپھی کو بہن کو بھات وغیرہ دیا ہے جوڑے دیئے ہیں اورہمیشہ دیا کرتے ہیں گویا اس کا میراث کا حصہ ادا کردیا جاتا ہے، اس کے جواب میں وہی مسخرہ میزبان کی حکایت کافی ہے۔ (اصلاح الرسوم ص:۱۶۳)
ترکہ کو تقسیم کئے بغیر صدقہ خیرات کرنا
عام طور پر رسم ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو اس کے ورثاء میں سے جو لوگ موقع پر موجود ہوتے ہیں اس کے کپڑے نکال نکال کر غریبوں محتاجوں کو مدارس میں مساجد میں تقسیم کرنا شروع کردیتے ہیں اور اس کا خیال نہیں کرتے کہ بعض ورثاء جو حاضر نہیں ہیں ، اس میں ان کا بھی حصہ ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اس طرح تقسیم کرنے کو پسند نہ کریں ، یا ان کی مرضی اور کسی جگہ دینے کی ہو، اسی طرح بعض ورثا نابالغ ہوتے ہیں اور ان کے حصہ میں بھی تصرف کرنا جائز نہیں بلکہ اگر وہ اجازت بھی دے دیں تب بھی عقد تبرّع اور ہبہ میں (یعنی اپنے مال کے ذریعہ کوئی احسان کرنے مثلاً صدقہ کرنے، کسی کو ہدیہ دینے میں ) ان کی اجازت شرعاً معتبر نہیں ۔