فضول خرچیوں اور اسراف کی بدولت مسلمان تباہ و برباد ہوگئے، مگر اس پر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں ایک شخص کے حال کو دیکھ کر دوسرا عبرت حاصل کرسکتا ہے، مگر نہیں کرتے، شادی بیاہ کے موقع پر لوگ آنکھیں بند کرلیتے ہیں ، اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ اس موقع پر خرچ کرنا چاہئے یا نہیں ۔
ہم کو اسلامی سادگی پررہنا چاہئے اگر کسی مہمان کی خاطر کچھ تکلف کیا جائے تو اس میں بھی اسلامی اعتدال کا لحاظ ضروری ہے مبالغہ نہ کیا جائے تواسی میں ہماری عزت ہے۔ (احکام المال، مظاہر الاموال)
میں کہا کرتا ہوں کہ تھوڑے سے بخل کے بغیر انتظام نہیں ہوسکتا، اور وہ بخل بھی صورۃً ہے حقیقۃً نہیں ۔ اور اگر حقیقی بھی ہو تو وہ بھی برا ہے، مگر اسراف ’’فضول خرچی‘‘ اس سے زیادہ برا ہے، جس چیزسے پریشانی ہو وہ اس سے بری ہے جس سے پریشانی نہ ہو۔ (الافاضات الیومیہ۲؍۱۵۳)
مال خرچ کرنے کا طریقہ
مسلمانوں نے اگر کچھ فکر بھی کی تو آمدنی کی فکر کرتے ہیں مگر خرچ کا کوئی انتظام نہیں کرتے، میرٹھ میں ایک رئیس نے بڑے کام کی بات کہی مجھ کو تو بڑی پسند آئی۔ فرماتے تھے کہ لوگ آمدنی بڑھانے کی فکر کرتے ہیں جو غیر اختیار ی ہے، اور خرچ گھٹانے کا انتظام نہیں کرتے جو اختیاری ہے۔
اس زمانہ میں سخت ضرورت ہے کہ مسلمان فکر سے کام لیں ، اور خرچ سوچ سمجھ کر کیا کریں ، جس کا نظام میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ خرچ کرنے سے قبل کم از کم تین مرتبہ سوچ لیا کریں کہ جو ہم خرچ کرنا چاہتے ہیں کیا یہ خرچ ایسا ضروری ہے کہ اس کے بغیر کوئی نقصان ہوگا؟ جہاں یہ تحقیق ہوجائے اس کو ضروری سمجھیں پھر یہ سوچیں کہ کیا اتنا ہی خرچ ہونا چاہئے یا اس سے کم میں بھی کام چل سکتا ہے،